“پاکستان آپ پر اعتماد کرتا ہے، پاکستان آپ پر انحصار کرتا ہے، پاکستان آپ کو اپنا محافظ سمجھتا ہے، اس کے اعتماد کو ضعف نہ پہنچائیے، خود کو اس کے شایانِ شان ثابت کر کے دکھائیے۔” (قائد اعظم کا برّی افواج سے خطاب۔۔ 13 اپریل 1948ء)
قائد اعظم کے اس فرمان کے تناظر میں اپنی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہماری افواج ہر موقعے پر خود کو پاکستان کے شایانِ شان ثابت کرتی آئی ہیں۔ جہاں حوالدار لالک جان ہیں جو کارگل کی فلک بوس چوٹیوں میں بھی ارضِ وطن کے دفاع کی خاطر اپنے لہو کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں۔ جہاں راشد منہاس جیسے کم سِن اور جری جوان ہیں جو ارض پاک کے دفاع کی خاطر اپنے طیارے کا رُخ زمین کی طرف موڑتے ہوئے ایک لمحے کو بھی ڈگمگاتے نہیں۔ جہاں میجر شبیر شریف دشمن کی دعوتِ مبازرت کے جواب میں خالی ہاتھ ہی دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جہاں لانس نائیک محمد محفوظ کا جسم دشمن کے بنکر سے ملتا ہے اور دشمن کے لیفٹیننٹ کرنل کو بھی ان کی بےباکی کی ان الفاظ میں داد دینا پڑتی ہے “اتنا بہادر اور دلیر جوان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا! اگر یہ میری فوج میں ہوتا تو میں اسے سب سے بڑا فوجی اعزاز دلواتا۔” جہاں ایم ایم عالم ہیں جن کے کارنامے نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ دنیا کی جنگی تاریخ کے ماتھے کا بھی جھومر ہیں!
محمد محمود عالم جنہیں دنیا ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے ، 6 جولائی 1935ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے، ان کے والدین بہاری تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے مشرقی پاکستان میں سکونت اختیار کی۔ گورنمنٹ ہائی سکول ڈھاکہ سے ایم ایم عالم نے تعلیم حاصل کی اور 1952ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ 1953ء میں کمیشن حاصل کیا، اپنے پستہ قد کی بدولت دوستوں سے ”پی نٹ” کا خطاب پایا۔ ایم ایم عالم کے دس بہن بھائی تھے۔ 1955ء میں ان کی شادی سے چند روز قبل ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ایم ایم عالم کے بقول ان کے سامنے دو راستے تھے، کہ وہ اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتے یا اپنے بہن بھائیوں کی پرورش کرتے۔ انہوں نے دوسرا راستہ چُنا اور ساری زندگی شادی نہیں کی۔ ان کے بہن بھائی بعد میں بہت اچھے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
ان کا شمار فضائیہ کے ہونہار اور مشاق ہوابازوں میں ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب 1955ء میں امریکہ سے سیبر طیارے حاصل کئے گئے تو ان کو اڑانے والے اولین ہوابازوں میں ایم ایم عالم بھی شامل تھے۔ 1964ء میں انہیں بطور سکواڈرن لیڈر سرگودھا میں تعینات کیا گیا۔
2 ستمبر 1965ء کو انہیں کشمیر میں جاری جنگ میں حصہ لینے کا حکم ملا جہاں ایم ایم عالم نے بمباری کر کے دشمن کے پانچ ٹینک اور ایک بکتر بند گاڑی تباہ کر دی۔ 4 ستمبر 1965ء کو انہیں جاسوسی کی غرض سے جموں ائیر بیس بھیجا گیا مگر ائیر بیس کی حدود میں داخل ہوتے ہی بھارتی گنوں نے ان کے طیارے پہ فائرنگ کر دی جس سے ان کے سیبر طیارے کی کاک پٹ کنوپی تباہ ہو گئی، مگر ایم ایم عالم نے طیارے کو بحفاظت سرگودھا ائیر بیس پر اتار لیا۔
جنگ ستمبر میں بھارتی فضائیہ کو عددی اور تکنیکی ہر لحاظ سے برتری حاصل تھی، بھارت کے پاس 476 لڑاکا اور 60 بمبار طیارے تھے جبکہ پاکستان محض 104 لڑاکا طیارے اور 26 بمبار طیارے رکھتا تھا، مگر پاکستانی ہوابازوں کی پیشہ ورانہ مہارت نے دشمن کو ہر محاذ پر دھول چٹا دی۔
6 ستمبر 1965ء کو ایم ایم عالم کو آدم پور کے ہوائی اڈے پر حملے کا حکم ملا، جہاں وہ دو ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے روانہ ہوئے۔ آدم پور کی حدود میں پہنچتے ہی انہیں چار بھارتی ہاکر ہنٹر طیاروں نے جا لیا۔ اس موقعے پر مد مقابل آئے ہوئے ساتوں طیاروں نے تیل کی فاضل ٹینکیاں گرائیں اور قریباً ساڑھے پانچ سو فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے مقابلے کے لئے تیار ہو گئے۔ ایم ایم عالم نے آخری طیارے کا پیچھا کیا اور نشانے پر آتے ہی فائرنگ کر کے اسے مار گرایا۔ اس طیارے میں بھارتی فضائیہ کا سکواڈرن لیڈر اجیت کمار سوار تھا جو کہ مارا گیا۔ ایم ایم عالم کے بقول اتنی کم بلندی پر دوبارہ کبھی ان کا دشمن سے سامنا نہیں ہوا۔ چونکہ طیاروں میں ایندھن کم رہ گیا تھا لہٰذا ایم ایم عالم نے اپنے ساتھیوں کو واپسی کا حکم دیا۔ مگر راستے میں مزید دو بھارتی ہاکر ہنٹر طیاروں نے ان پر حملہ کیا جس پر ایم ایم عالم نے جوابی فائرنگ کر دی، نتیجتاً ایک طیارہ فائرنگ کی زد میں آ گیا جبکہ دوسرے نے راہِ فرار اختیار کی۔ ایم ایم عالم اپنے ساتھیوں سمیت بحفاظت سرگودھا پہنچنے میں کامیاب رہے۔
یہ 7 ستمبر 1965ء کی صبح کا ذکر ہے جب ایم ایم عالم اپنے ساتھی سمیت کاک پٹ میں دشمن کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ یکایک انہیں فضا میں سات فرانسیسی ساختہ بھارتی طیارے نمودار ہوتے دکھائی دئیے جو نیچی پرواز کے باعث ریڈار پر نظر نہ آ سکے تھے۔ ان طیاروں کو دیکھ کر پاکستانی ہواباز ہکابکا رہ گئے۔ خوش قسمتی سے بھارتی طیاروں کے گرائے ہوئے راکٹ اور گولیوں کے نشانے خطا ہو گئے اور وہ افراتفری میں بھاگ نکلے۔ یہ دیکھ کر ایم ایم عالم اور ان کے ساتھی نے اپنا طیارہ ہوا میں بلند کر لیا۔ کچھ دیر بعد کنٹرول ٹاور سے اطلاع موصول ہوئی کہ مزید حملہ آور آ رہے ہیں۔
سرگودھا سے دس میل دور انہیں چار ہنٹر طیارے نظر آ گئے، ایم ایم عالم اور ان کے ساتھی، دونوں نے مل کر ان ہنٹروں کا پیچھا کیا۔ عین اسی وقت دو اور ہنٹر طیارے جو سرگودھا ائیر بیس پر حملے کی غرض سے بڑھ رہے تھے، نے اپنا رخ موڑا اور پیچھے سے ایم ایم عالم پہ حملہ آور ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ایم ایم عالم برق رفتاری سے ان طیاروں کے عقب میں جا پہنچے، ان کے فائر کئے ہوئے پہلے میزائل کا نشانہ خطا ہو گیا، مگر ان کا داغا گیا دوسرا میزائل کارگر رہا اور پچھلا ہنٹر طیارہ زمین پر آرہا۔ اس طیارے میں سوار سکواڈرن لیڈر اونکارناتھ نے طیارے کے آگ پکڑنے سے پہلے ہی بذریعہ پیراشوٹ چھلانگ لگا دی تھی، جسے بعدازاں مقامی دیہاتیوں نے پاک فوج کے حوالے کر دیا۔ دوسرا ہنٹر فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ اسی اثناء میں ایم ایم عالم کے پیچھے رہ جانے والے ساتھی فلائنگ آفیسر مسعود اختر ان سے آ ملے اور دونوں بھارتی طیاروں کے تعاقب میں دریائے چناب تک جا نکلے جہاں انہیں پانچوں ہنٹر طیارے نظر آ گئے۔
ایم ایم عالم کے نزدیک پہنچتے ہی وہ حواس باختہ ہو گئے اور پانچوں طیاروں نے بیک وقت بھارتی سرحد کی طرف بھاگ نکلنے کی کوشش کی۔ یہی وہ لازوال لمحہ تھا جب ایم ایم عالم نے جنگی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پانچ بھارتی طیارے مار گرائے، جن میں سے چار محض تیس سیکنڈ کے دورانیے میں تباہ کر ڈالے!
اس وقت کے پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل نور خان کے بقول جب انہیں ایم ایم عالم کے اس کارنامے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، مگر متعلقہ ایجنسیوں سے چھان بین کے بعد جب یہ کارنامہ ثابت ہو گیا تو انہوں نے ایم ایم عالم کو بلا کر شاباش دی۔
16 ستمبر 1965ء کو وہ اپنے ساتھی فلائنگ آفیسر محمد شوکت کے ہمراہ ہلواڑہ بیس کی ریکی کرنے گئے، جہاں جلد ہی دو ہنٹر طیارے ان کے مقابل آ گئے، ایم ایم عالم نے ایک ہنٹر کو مار گرایا جبکہ دوسرا بچ نکلا۔ ایم ایم عالم کے ہاتھ سے زندہ بچ نکلنے پر اس ہواباز کو بھارتی حکومت کی جانب سے “ویر چکر” عطا کیا گیا۔
جنگ کے اختتام پر ایم ایم عالم کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارۂ جرأت اور میڈل بار سے نوازا گیا۔ اس جنگ میں انہوں نے بھارتی فضائیہ کے کُل نو طیارے تباہ کئے جبکہ دو کو نقصان پہنچایا۔ پی ای ایف کراچی میوزیم کے “ہال آف فیم” میں ان کا نام سرِفہرست ہے۔
1971ء میں انہیں بنگلہ دیش کی فضائیہ کے سربراہ کے عہدے کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے پاکستان رہنے کو ترجیح دی۔ وہ 1982ء میں بطور ائیر کموڈور پاک فضائیہ سے ریٹائر ہوئے۔
18 مارچ 2013ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ایم ایم عالم کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی سے کشید کئے جا سکنے والے اسباق بےشمار ہیں، جہاں وہ اپنے بہن بھائیوں کی زندگی سنوارنے کیلئے اپنی خوشیاں داؤ پر لگاتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مشق اور فرائض کو تندہی سے انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ان جیسے شاہینوں کیلئے ہی کہا ہے
“شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تَو نہیں خطرۂ افتاد!”