اے راہِ حق کے شہیدو!
عظیم ماں ! تجھے صد مبارک!
مٹی سے محبت کا احساس باقی سب محبتوں پر بھاری اور ان سے کہیں زیادہ پر لطف اور پر کیف ہوتا ہے۔جس مٹی سے آپ کو نسبت ہو، جس نے آپ کو جنم دیا ہو ، جس نے پالا ہو ، جس دھرتی نے آپ کے قدم اپنے وجود پر سہے ہوں …اس پر مر مٹنے کا دل تو پھر سب کا ہی کرے گا ناں! موت بھی پھر وہ موت جسے موت نہیں شہادت کہتے ہیں ۔وہ موت جس کیلئے ہر ہاتھ اٹھے ، ہر لب ہلے ، ہر آنکھ برسے ، دنیا ترسے۔۔وہ موت تو حیات ہے۔ ابتدائے حیات ابدی۔۔جو مٹی سے ہوں ۔۔زمیں زاد ہوں وہ مر کر بھی کیسے مریں !
اس وردی اس پیرہن کا اپنا ہی نشہ ہے۔یہ وردی دھرتی سے نسبت کا احساس دلاتی ہے۔یہ وردی جسے پہن کر کچھ بھی اپنا نہیں رہتا۔سب کچھ اس کا ہو جاتا ہے۔ اس مٹی کا۔پھر چاہے وہ جان مانگے یا سر کا آسمان ۔۔دے دینا چاہئے۔۔دینے والے دے آتے ہیں ۔موت تو بر حق ہے مگر اصل موت وہ ہے جو وہاں آئے۔اس وردی میں آئے۔اپنی زمیں کے کناروں پر۔۔اپنی مٹی کے دامن میں ۔۔جہاں گولیاں سینے پر سہہ کر بھی آپکا رْواں رْواں ڈٹے رہنے پہ اڑا رہے۔آپکی نس نس لڑتے رہنے پر بضد رہے۔اکھڑتی سانسیں بند ہونے کو ہوں ، گولیاں جسم کے آر پار ہوتی رہیں ۔یہاں تک کے پورے وجود میں سوراخ ہو جائیں ،سر تا پا لہو بہنے لگے۔سینے پہ اور بازو پہ لگے وہ چھوٹے چھوٹے سبز جھنڈے …وہ چاند ستارہ خون میں تر بتر ہو جائیں ۔آنکھوں کی روشنی پگھلنے لگے۔جسم ریزہ ریزہ ہونے لگے۔روح ریشہ ریشہ ادھڑنے لگے ، جاں بے جاں ہونے لگے۔ سانسیں ٹوٹنے لگیں اور ٹھیک اسی لمحے ۔۔آپکی مٹی ۔۔آپکی اپنی مٹی ، زمیں کے بیٹے کیلئے اپنی بانہیں وا کر دے۔وہ آخری سانسیں ۔۔وہ آخری لڑکھڑاہٹ ۔۔پھر حواس کے بند ہو تے دریچوں کے ساتھ خود کو زمیں کے سپرد کرتے ہی وہ سارے ادھار ، وہ سارے قرض ،سارے کفارے خون چکاتا ہے۔وہ آخری چند لمحے ہی ایک بے مول ، بےوقعت سی جان کو انمول بنا دیتے ہیں ! ان آخری چند لمحوں کی لذت سے بس وہ ہی واقف ہوتے ہوں گے جو ان ساعتوں کو جیتے ہوں ۔اپنی ہی زمیں ’’پہ‘‘ مرنا۔۔اپنی ہی زمیں ’’کیلئے‘‘ مرنا۔۔اور پھر اپنی ہی زمیں میں ’’بسنا‘‘ جانے کیسا احساس ہوتا ہو گا۔
وہاں دور آپ جاں لٹا چکے ہوں ، حیات پا چکے ہوں ،مگر یہاں پیچھے ماں اپنے نئے رتبے’’ شہید کی ماں ‘‘ سے بے خبر اس لعل کا صدقہ اتارنے میں مصروف ہو ۔اس بات سے لاعلم کہ وہ تو وہاں اپنی مٹی کی نظر اتار چکا ہے ۔۔اپنے خون تک کا صدقہ نکال چکا ہے۔کوئی گھرپہ خبر کرے ۔۔شہید کے ورثا کو۔۔کوئی خط نہیں ۔۔کوئی ہنستے چہرے سے کندھے پر بیگ ڈالے ، ماں کے گلے لگنے نہ آئے۔۔فقط ایک سبز گاڑی اور اس پہ گھومتی سرخ بتی۔
وہ ہم نفسوں کے کندھوں پر سبز پرچم میں لپٹا ایک تابوت ۔۔اور اس پہ سجے ٹوپی میڈلز ٗCaneاور وہی وردی۔
شہید کے اثاثے سوگواران کو دیے جائیں مگر شہید کا اثاثہ تو صرف مٹی ہی ہوتی ہے۔۔شہید کےسوگواروں میں تو دیس کا بچہ بچہ شامل ہوتا ہے۔۔سب لوگ کھڑے ہوں ۔۔ایک شہید کے لیے کھڑے ہوں ،کسی کے حصے میں میڈلز آئیں ۔۔کسی کے لیے کندھے کے وہ پھول ۔۔کسی کو وہ ٹوپی اور کسی کو سینے کا وہ سبز پرچم۔۔سب شہید کے تحفے تھامے کھڑے ہوں ۔۔ماں بے یقینی کے عالم میں وہ وردی تھامے کھڑی ہو۔۔جسے وہ پہلی بار بے جان اور بے وجود دیکھ رہی ہو۔۔پھر اس وردی ،ان مختلف ہاتھوں میں پھول ، جھنڈاٗٹوپی اورسامنے سبز پرچم میں لپٹا تابوت دیکھ کر جیسے برف پگھلنے لگے۔۔سب یاد آنے لگے۔۔بچپن سے لڑکپن ۔۔لڑکپن سے بھری جوانی میں موت ۔۔ماں کے ارمان ۔۔ارمان ہی رہ جائیں ۔۔بیٹے کے لیے سرخ پھول تو ہوں ۔مگر سہرے کے نہیں قبر کے ہوں ۔۔نئے کپڑے تو ہوں مگر لٹھے کے کفن کی صورت میں ۔۔ماں کی آسیں ،امیدیں ،خواہشات ۔۔ایک وجود کے ساتھ دم توڑنے لگیں ۔۔فوجی اگر جیتا رہے تو پورا ملک سلامت رہتا ہے۔۔فوجی اگر مر جائے تو بہت سوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔زندگی کا زندگی سے کیا واسطہ ہے۔۔یہ وہی جان سکتے ہیں جو جانیں لٹا آتے ہیں !
وہ شاہی جلوس ،وہ پرچمِ شاندار اور اس میں لپٹا ایک شہید۔۔اسی کے جیسے وردیوں والے ہم نفس ،ہم ذاد ۔۔دایاں ہاتھ کنپٹی پر رکھے زمیں کے بیٹے کو ، دھرتی ماں کی آغوش میں بھیجنے سے پہلے آخری بار سلامی دیں ۔۔زمیں تا عرش فرشتے اس حیاتِ ابدی پانے والے اس ماں کے لاڈلے کے منتظر ہوں ٗقائد واقبال سرِ عرش راہ تکیں ۔۔خیبر شکن ،شیر خدا ،سیف اللہ ،طارق و قاسم بھی اسے لانے کو تیار ہوں کہ کب اہلِ فرش دفنائیں اور اہلِ عرش لائیں ۔حوریں اس مردِ آزاد کی ہمراہی کا شرف پانے کو بے تاب ہوں ۔۔ساتوں آسمانوں پر خوشبوؤیں مہکتی ہوں ۔۔نور برستا ہو۔۔اس کے لہو کی مہک بہشت کی ہواؤں میں رچی بسی ہو۔۔اور زمیں پہ کہیں دور کسی سبز پرچم کے سائے تلے کسی گھنے پیڑ کے نیچے ۔۔اس شہید کو دفنا دیا جائے۔
اور پھر دفناتے ہی دنیا بدل جائے۔زندگی لوٹ آئے۔۔قبر خود ہو خود کو وا کر دے ۔منکر نکیر سوال کیے بغیرہی پلٹ جائیں ۔اہلِ عرش لینے پہنچ جائیں ۔عرش پہ شادیانے بجنے لگیں۔عرش تا فرش پھول بچھائے جائیں ۔ماں کے لاڈلے کا شاہی جلوس عرش پہ جانے لگے۔فرشتے قطار در قطار کھڑے ہوں۔بہشت کے اس نئے مکیں کے لیے سب ہی دروازے وا ہوں ۔شہید کو اصل مقام دکھا کر جنت کی کھڑکی قبر میں کھول دی جائے۔ہوائیں چلتی رہیں ۔۔خوشبو مہکتی رہے۔۔رزق آتا رہے۔۔لہو بہتا رہے۔