پاکستان، جس کی تاریخ سیاسی حوالے سے خاصی بدحال اور ابتر رہی ہے۔ کبھی جمہوریت ، کبھی آمریت ، اسی کشمکش میں ملک کا بیڑا غرق ہوتا رہا ۔ لیکن پاکستان میں اب جمہوریت کا تسلسل قائم ہے اور تقریباً ایک سال بعد ایک اور جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔
عام انتخابات ٢٠١٣ء کے بعد میاں محمد نواز شریف پاکستان کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے، ماضی میں ان کے گِلے شکوے رہے کہ آمریت نے ملک کی ترقی کو نقصان پہنچایا تو قسمت نے ان کو ایک بار پھر موقع دیا کہ وہ اپنی صلاحیت سے ملک کی تقدیر بدلیں ۔ کیونکہ نواز حکومت کو زرداری حکومت سے کافی پریشانیاں اور مسائل ورثے میں ملے تھے تو پوری قوم نے میاں صاحب کا ساتھ دیا حتٰی کہ قوم نے کنٹنیرز اور دھرنے کی سیاست کو بھی رد کیا۔
اس کے برعکس میاں صاحب نے ہمیشہ کی طرح اپنا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک و قوم کے سربراہ سے کرنے کے بجائے کسی مغل دور کے بادشاہ سے ہی رکھا ہے۔ جس طرح مغل بادشاہوں نے پورے دور حکومت میں صرف اور صرف مقبروں اور عمارتوں کو بنانے پر توجہ مرکوز رکھی بالکل اسی طرح اور اپنے پچھلے دور کی طرح میاں صاحب نے اپنی روایات کو برقرار رکھا۔ ماضی میں بھی وہ سڑکیں بنانے کو ( یعنی لاہور تا اسلام آباد موٹروے کو) اپنی سب سے بڑی کامیابی گردانتے تھے اور آج بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ملک میں صحت ، تعلیم اور بڑھتی غربت جیسے مسائل جوں کے توں ہیں ، یہ شعبے بدحال ہورہے ہیں اور ان پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری طرف خادم اعلٰی جناب شہباز شریف صاحب ہیں جو اس وقت تقریباً ۹ سالوں سے صوبۂ پنجاب کے وزیر اعلٰی ہیں۔ اگر ان کے قابلِ تعریف کارناموں کی گنتی کی جائے تو صرف لاہور شہر کو فلائی اوورز اور میٹرو کا شہر بنانا ہے۔ لیکن اگر جنوبی پنجاب کی حالت دیکھی جائے تو شاید انسانیت شرم سے چور چور ہوجائے۔ بچے وبائی امراض کا شکار ہورہے ہیں ، عورتوں کے لئے میٹرنٹی ہوم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صحت کے مراکز لاغر سے لاغر ہورہے ہیں، اسپتالوں کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ اگر میٹرو اور فلائی اوورز کا ۳۰ فیصد بھی ان کاموں کے لئے جنوبی پنجاب میں وقف کر دیا جاتا تو آج حالات کچھ الگ ہوتے۔
قارئین امن و امان کی صورتحال سے واقف ہیں ، ملک میں موجود تمام کالعدم تنظمیں اب جنوبی پنجاب سے ہی آپریٹ تقریباً ہیں اور وہاں بچے و نوجوان غربت اور کم علمی کی وجہ سے ان تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔ خیر سے خادم اعلٰی ملتان میں میٹرو جیسے منصوبوں کے خواہشمند ہیں جبکہ صحت و تعلیم کے مراکز پر توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ وزیر اعلٰی صاحب کو بذات خود گلوبل انڈیکس کے بارے علم ہونا چاہیے جو کہتے ہیں کہ غربت اور ناخواندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
تیسری طرف ترقی کے حوالے سے عالمی بینک کہتا ہے کہ کسی بھی ملک میں ترقی کا دارومدار صرف اور صرف تین چیزوں پر ہے، بہتر خوراک، صحت اور تعلیم ۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھا جائے انہوں نے ان شعبوں میں پچھلے ۴ سالوں میں کیا قابل تعریف کام کیا ہے؟ تو شاید وہ جواب دینے سے قاصر ہوں۔
چوتھی طرف اقوامِ متحدہ اور اسکے ذیلی ادارے وقتاً فوقتاً اپنی رپورٹ کے ذریعے صرف تعلیم اور صحت ہی کے حواحکومتِ وقت کو ان کی حالتِ زار پر توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ اگر تعلیم کے ہی حوالے سے حالیہ چند رپوٹوں کو دیکھ لیں تو شاید ہمارے سر شرم سے جھک جائیں۔ پاکستان میں تقریبا ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور آئندہ ایک سال میں غربت کی وجہ سے یہ تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اور اگر معیار کے حوالے سے رپورٹ دیکھ لیں تو اس میں تعلیم کے معیار کو انتہائی ناقص قرار دیا گیا ہے، جس کا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ایسے حالات میں میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے دور اقتدار کے آخری سال میں ملک میں انفراسٹرکچر کے بجائے تعلیم و صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی نافذ کریں ورنہ شاید ان کا بھی وہی حال ہوگا جو مغلیہ دور کے بادشاہوں کا ہوا کہ آج آنے والی نسل ان کو صرف اور صرف خود پرست اور مقبروں و میناروں تعمیر کرنے والوں کے ناموں سے جانتی ہے۔