27اکتوبر 1947ء کا دن اسلامیان کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب بھارت کے نوخیز برہمنی سامراج نے برصغیر کی تقسیم کے مسلمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش اور منافقت سے کام لے کر غالب مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی تھی جس میں کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں حق خودارادیت دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میں یکم جنوری 1948ء کو لے کر گیا اس پر آج تک عملدرآمد نہ ہو سکا جو کہ اقوام عالم کی بے حسی اور ہندوستان کی مکاری کو ظاہر کرتا ہے کہ قرارداد بھی خود پیش کی اور آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔
اس قرارداد کے اہم نقاط یہ تھے۔
(1) فوری طور پر جنگ بندی ہو۔
(2) ریاست جموں و کشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔
(3) ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔
(4) صورت حال معمول پر آجائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کرائی جائے۔
اگست 1949ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا اور نہ اپنے نمائندے ہی مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950ء میں اپنا نامزد نمائندہ بنا کر برصغیر بھیجا، اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے پہلے نکل جائیں اور کچھ روز بعد بھارتی افواج بھی چلی جائیں۔ آزاد کشمیر کی افواج اور ناردرن سکاؤٹس جیسی تنظیمیں ختم کردی جائیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشیا کو توڑ دیا جائے۔ رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تاکہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی وزارت عظمیٰ کے تحت حکومت برقرار رہے۔ البتہ ایسا بندوبست کیا جائے کہ شیخ صاحب اپنے مطلب کے نتائج کیلئے موثر کارروائی نہ کر سکیں۔ اسکے علاوہ ڈکسن نے یہ بھی فارمولا پیش کیا کہ سارے جموں وکشمیر میں واحد انتظامیہ قائم ہو جو مکمل طور پر غیر جانبدار ہو اور غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہو اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ براہ راست اقوام متحدہ کا کنٹرول ہو جائے۔
ڈکسن کا پلان ناکام ہوگیا۔ بھارت ہٹ دھرمی کا آغاز کر چکا تھا ،اسے اقوام متحدہ نے اپنا تسلط جمانے کیلئے کافی وقت فراہم کردیا تھا ۔ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ”بھارت کی افواج نسبتاً زیادہ آبادی والے حصے میں موجود ہیں، ایسے میں اگر ریاستی ملیشیا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکیں گے اور اگر رائے شماری کا نتیجہ پاکستان کی توقعات کے برعکس نکلا تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ رائے شماری آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھی۔
سراوون ڈکسن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر برصغیر آئے۔ سلامتی کونسل نے 30 مارچ 1951ء کو مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے بعد ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کی قراردادوں کے مطابق وادی سے تمام افواج باہر نکال لی جائیں۔ ڈاکٹر گراہم کو رائے شماری کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل کروانے کیلئے بھیجا گیا۔
ڈاکٹر گراہم نے تین مہینے تک دونوں ممالک کے نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقاتیں کیں تاہم ڈاکٹر گراہم نے 21 دسمبر کو اپنی رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کی اور اپنی بے بسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا، ”میں قائل ہوگیا ہوں کہ بھارت کو افواج واپس بلانے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ایسے حالات ہی پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ کشمیری عوام دھونس اور دھاندلی سے متاثر ہوئے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں” ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان نے ان تجاویز پر عملدرآمد کرنے کے حق میں رائے دی اور مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کارویہ منفی رہا۔ بھارت کی سرکار نے صرف تین مختلف مواقع پر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کی، اول جب فروری 1999ء میں واجپائی لاہور آئے اور ایک قبول شدہ ٹائم فریم میں مفاہمت پر آمادگی ظاہر کی جس کے مطابق 25 سال کیلئے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے درمیان لائن آف کنٹرول ختم کردی جائے، کشمیری جس ملک کا چاہیں ویزہ رکھیں اور کشمیر کا دفاع اور خارجہ پالیسی کے معاملات پاکستان اور ہندوستان کی مرضی سے طے پائیں۔ دوم، جولائی 2000ء میں نئی دہلی نے کشمیر کے مجاہدین آزادی کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔
سوم، جب واجپائی نے جنرل مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی اور اپنی 20ماہ کی اس پالیسی سے یو ٹرن لیا جس کے تحت واجپائی نے اکتوبر 1999ء کے فوجی شب خون کے بعد پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔
آج پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ وابستگی کو مضبوط کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے جائز طریقوں سے حصول پر زور دے کر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اساس کو بے حد مضبوط کردیا ہے ،کیونکہ 8 جون 1998ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظور شدہ قرارداد میں بھی کشمیر کا ذکر کیا گیا۔ اس قرارداد میں جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن، تحفظ اور استحکام کیلئے ہندوستان اور پاکستان میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا گیا، جبکہ بھارت 1949ء سے آج تک ہر بار اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو مختلف بہانوں سے ٹالتا آیا ہے۔ انہی سالوں کے دوران بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قردادوں کو پامال کرتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا۔ صرف 1989ء سے دسمبر 2013ء تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ظلم و ستم کرتے ہوئے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہیدکیا ،22ہزار سے زائد خواتین بیوہ جبکہ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے، دس ہزار سے زائد کشمیری خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی پیشکش کر چکے ہیں کہ وہ کشمیر کے تنازعے کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے مابین ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں جس کے جواب میں اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب سید اکبر الدین نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یو این فوجی مبصر مشن براہ راست سیز فائر یا کنٹرول لائن فائرنگ کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتا۔ کچھ دن پہلے ایران کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کی پیشکش بھی آئی جبکہ امریکہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔ اقوام متحدہ کے سربراہ اینٹونیو گوٹیریس نے بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن بھارتی نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ تنازع ہے۔
کسی ثالث کی ضرورت نہیں،پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے کچھ دن پہلے بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ فاش ہونے کے خوف میں مبتلا ہوکر او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن کو مقبوضہ وادی کا دورہ کرانے سے انکار کردیا جبکہ پاکستان نے بخوشی اجازت دےدی ۔
اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری نے کشمیر پر پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر رکھی ہے لیکن بھارت نے نہ صرف ہر بار مذاکرات سے انکار کیا بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی تنظمیں کی رپورٹوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیر میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے جبکہ پاکستان نے نا صرف ہر ملک کی ثالثی کو خوش آمدید کہا بلکہ او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن اور اقوام متحدہ کے متعدد کمیشن سمیت ہر انسانی حقوق کی تنظیم کو آزاد کشمیر کا دورہ بھی کروایا ۔ پاکستان حکومت اور عوام کی کشمیر پالیسی سب کے سامنے ہے، وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور شناخت ہے اور ہم کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہیں گے۔ لیکن آخر کب تک پاکستان کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کو آزماتا رہے گا ؟ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان خود آگے بڑھ کر کشمیریوں کو آزادی دلائے اور پوری عالمی برادری پاکستانی اقدامات کی تائید کرے کیونکہ بھارت کسی صورت کشمیر کو آزادی نہیں دے گا۔
It’s an awesome piece of writing for all the internet viewers; they will take
advantage from it I am sure.