اس کائنات میں خدا کی سب سے خوبصورت تخلیق انسان ہے اور یہ کائنات انسانی مزاج کے رنگوں سے مزیّن ہے ۔ مزاج ہی انسانی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے، جس کا وجود اردگرد کے ماحول،وراثتی منتقلی یا اندرونی طبیعت جو کہ ‘سوچ ‘ کےتابع ہوتی ہے، کا مجموعہ ہے . یہ سوچ ہی ایک دوسرے کو سمجھنے ،اختلاف و اتفاق رائے کرنے اور روز مرہ کے معاملات میں کارفرما ہے، جو انفرادی حثیت سے نکل کر اجتماعی رویہ بن جاتی ہے۔
کتابی حوالے سے دیکھا جائے تو کسی علاقے کے لوگوں کے گروہ یا اکٹھ کو “معاشرہ” کا نام دیا گیا ہے ، جہاں کی مخصوص تہذیب و ثقا فت یا رہن سہن کے طور طریقوں کا ضابطہ ہوتا ہے جو اس معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ، لیکن یہاں تہذیب و ثقافت سے ہٹ کر کے معاشرتی سوچ یا مزاج کا ذکر مقصود ہے جن کا تعلق لوگوں کے باہمی معاملا ت سے ہے .
برصغیر پاک و ہند کی بات کریں تو یہاں کے لوگوں کا معاشرتی رویہ ،دیگر معاشروں کے لئے بہت دلچسپ اور منفرد حیثیت کا حا مل ہے .چو نکہ تقسیم سے قبل یہاں تین مختلف مذاہب کے پیروکار مسلم ،ہندو اور سکھ اکٹھےرہ رہے تھے اور اب بھی رہ رہے ہیں سو اس اکٹھ کی بدولت باشندوں کی مثلث سوچ کے عناصر کا ملاپ ابھی تک معاشرے میں کلیاتی کردار ادا کر رہا ہے .جس میں تنگ نظری اور غلامانہ ذہنیت کی ملاوٹ وافر مقدار میں موجود ہے نتیجتاً توہمات اور من گھڑت نظریات نے جنم لیا ہے۔
ا گرچہ پا کستان “اسلام کی تجربہ گاہ” کے نام پر وجود میں آیا لیکن اخلا قیا ت سے ماورا رویّو ں نے نسلوں کے ذہنوں کو کھوکھلا کر دیا ہے ، جو ہمارے معاشرتی مزاج کا پتہ دیتی ھیں ۔ اس پہلو کا سرسری جائزہ لیں تو ..ایک فرد کا دوسرے کو اپنے لیے بدبخت سمجهنا ، خدا کی طرف سے آزمائش کو جادو ٹُونے کا شاخسانہ قرار دینا یا پھر حقیقتاً کوئی معاملہ اپنی مرضی سے کرنے کے واسطے ان خرافات کا سہارا لینا ،دو لت کے حصول کےلئے حق تلفی کرنا، بیٹی کی شادی کیلئے والدین کے سر جہیز کی لعنت کا بھاری بوجھ ہونا ،عدم برداشت ، یہ وہ چند نکات ہیں جو کہ انسانی فطرت اور اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہیں . ان میں سے بہت سی برائیاں تو دیگر معاشروں میں بھی موجود ھیں لیکن وہاں یہ گرداب انفرادی ،خاندانی یا اجتماعی طور پر رکاوٹ کا باعث نہیں ، لوگ آپس میں باہمی احترام ، انسانیت اور عزت نفس کا خیا ل رکھتے ھیں۔
قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ دینِ اسلام کی اس حوالے سے جو تعلیمات ھیں اس کا پرچار کرنے والے منبر و محراب کے وارث بھی اس اہم ترین پہلو کی اشاعت سے گریزاں ھیں اور مسلکی افراتفری کا شکار ھیں .بہت کم واعظین اس فریضہ کو سمجھتےھوئے نہ صرف اس پر عمل پیرا ھیں بلکہ اس نہج پر عوام النا س کی تربیت بھی کر رہے ھیں۔
تذبذب کے اس دورانیہ میں جس چیز کا مزید اضافہ ہوا ہے وہ آج کی دنیا میں “تہذیبوں کا ٹکراؤ ” ہےجو کہ ” گلوبل ولیج ” کا شاخسانہ ہے .جس نے برّصغیر کی مہذب اور منفرد تہذیب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور نئی نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے. اس تناظر میں دیکھا جائے تو جس معاشرتی مزاج کے غلط پہلوؤں کو یہاں بیان کیا گیا ہے نئی نسل اس سے متنفر بھی ہے جو کہ ایک مثبت بات ہے لیکن مادیت پرستی نے کچھ خول بھی چڑھا دئیے ھیں، جنہں اتارنا ضروری ہے .
صحت مند اور فلاحی معاشرے افراد کی مثبت سوچ اور مزاج سے بنتے ھیں جو ہماری تہذیب و ثقا فت اور روایت میں موجود ھیں اور سب سے بڑ ھ کر دین اسلام نے ایک واضح اصول دیا ہے جس کو صرف اپنانے کی ضرورت ہے۔