بھارتی نیوی کا حاضرسروس کمانڈر اور را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو بھارتی شہر ممبئی کے علاقے سلور اوک پوائی ہیرانندانی گارڈنز کا رہائشی تھا۔ پچھلے 25 برسوں سے بھارتی سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں میں کام کرتا رہا۔اس نے 1991ء میں بھارتی بحریہ میں ملازمت اختیار کی۔ یہ نیول انٹیلی جنس میں کمانڈر رینک کا آفیسر رہا اور اس کے بعد بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ میں شامل ہوگیا۔ یہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پر کام کرتا رہا اور ایرانی ویزے پر افغانستان میں داخل ہوا، افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوا۔ اس نے پاکستان کا جعلی شناختی کارڈ بنوایا۔ اس کے بل بوتے پر بلوچستان میں پاکستان مخالف سرگرمیاں شروع کردیں ۔ اسےپاکستان کی محافظ آئی ایس آئی نے ایران سے سرحد عبورکرتے ہوئے ،تین مارچ 2016 کو عین موقع پر گرفتار کر لیا۔ اس کا فرضی نام حسین مبارک پٹیل اور اصل نام کل بھوشن یادیو۔ہے۔حسین مبارک پٹیل کے علاوہ مبارک حسین، حسن بلوچ اور امداد اللہ کے فرضی ناموں سے بھی کام کرتا رہا۔ اس نے بلوچستان کے علاقے وڈ کے رہائشی حاجی بلوچ سے رابطے استوار کیے۔ یہی حاجی بلوچ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا سہولت کار تھا۔
کل بھوشن یادو ملک دشمن اور کالعدم تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں انجام دیتا تھااور دہشت گردوں کو مالی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا تھا۔ سانحۂ صفورا میں بس پر ہونے والی فائرنگ سے 45 افراد کے قاتل بھی اسی حاجی بلوچ سے رابطے میں تھے اور کل بھوشن یادو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اسی حاجی بلوچ سے مدد لے رہا تھا۔اس کا اصل ٹارگٹ اقتصادی راہداری کو ناکام بنانا تھا۔ اس کے لیے یہ پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتا تھا۔ مقامی لوگوں کو خرید کر، انہیں استعمال کرکے بھارتی عزائم کی راہ ہموار کر رہا تھا۔ اسی طرح کراچی میں قتل وغارت گری اور فسادات پھیلانے کے لیے بھی سرگرم تھا۔ گذشتہ برس پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلی جنس ونگ نے اسے بلوچستان سے گرفتار کیا اور تفتیش کے لیے اسلام آباد منتقل کر دیا۔ دوران تفتیش اس نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی وارداتیں کرانے کا اعتراف کیا۔ اس نے تسلیم کیا وہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے اور اس کا بڑا ہدف اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانا تھا۔یہ گرفتاری پاکستان کی تاریخ کے لیے ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ یہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر بھی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ــ’’را‘‘ کا جاسوس بھی پاکستان میں اس سے پہلے بھی بھارتی جاسوسوں کی گرفتاریاں ہوتی رہیں۔ مثلاً 25 اگست 2015ء کو حساس اداروں نے واہگہ بارڈر کے قریب بسیم نامی گاؤں سے ایک بھارتی ایجنٹ کو گرفتار کیا تھا۔اس کے بارے میں یہ دعوٰی کیا گیا تھا کہ یہ پنجاب پولیس کے محکمہ اسپیشل برانچ میں کام کرتا رہا۔ 10 سال تک وی وی آئی پی پروٹیکشن میں تعینات رہا۔ یہ پاک آرمی اور پولیس بارے ’’را‘‘ کو معلومات فراہم کرتا تھا۔یہ متعدد مرتبہ بھارت بھی گیا۔ اس سے پاکستان کے حساس مقامات کے نقشے اور دیگر دستاویزات بھی برآمد ہوئی تھیں۔ اسی طرح کراچی میں سی ٹی ڈی نے واٹر بورڈ کے دفتر سے ’’را‘‘ کے ایک مبینہ ایجنٹ ندیم عرف انکل کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ واٹر بورڈ کا گھوسٹ ملازم ہے۔ اس کے مشہور زمانہ دہشت گرد جاوید لنگڑا کے ساتھ رابطے ہیں اور ’’را‘‘ کے لوکل آپریٹو کے طور پر کام کرتا رہا۔ بعدازاں اعترافی بیان میں اس نے بھارت سے ٹریننگ حاصل کرنے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی مدد کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ 2 فروری 2016ء کو لاہور سے ایک افضل نامی بھارتی جاسوس کو گرفتار کیا گیا۔ اس کا اصل نام احمد صدیقی تھا اور یہ بھی ’’را‘‘ کے لیے کام کر رہا تھا۔ 16؍ فروری 2016 کو کو ہاٹ سے نہال احمد انصاری نامی ایک بھارتی جاسوس گرفتار ہوا۔ اس نے بھی اعتراف جرم کیا اور فوجی عدالتوں نے اسے تین برس قید کی سزا سنائی۔ سربجیت سنگھ بھی ایک بھارتی جاسوس تھا، یہ بھی گرفتار ہوا، پاکستانی جیل میں قید رہا اور پھر اسے پھانسی کی سزا دے دی گئی ۔کشمیر سنگھ نام کا جاسوس گرفتار ہوا اور 30 سال کی سزا بھگتنے کے بعد واپس بھارت بھیجا گیا، گوپال داس نامی ’’را‘‘ کا ایجنٹ بھی 27 سال قید کاٹنے کے بعد رہا کیا گیا۔ اسی طرح کلدیپ یادیو اورکرپال سنگھ نامی بھارتی خفیہ ایجنسی کے کارندے پاکستان میں اپنے مکروہ عزائم کے لیے سرگرم رہے، مگر ان سب جاسوسوں کی گرفتاری، اعترافات اور انکشافات سے زیادہ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اہم ہے اور پاکستان نے اس ٹھوس ثبوت کو ضائع نہیں کیا۔ ہم سب جانتے ہیں بھارت کے مکروہ عزائم کا یہ سلسلہ نیانہیں۔ بھارت کے راتوں رات پاکستان کو فتح کرنے کے عزائم ہوں، کنٹرول لائن پر دراندازی ہو، کشمیر پر قبضہ ہو، سقوط ڈھاکا میں مکتی باہنی بنانے، ان کی مدد کرنے اور پاکستان کو دولخت کرنے کی سازشیں ہوں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے ہی جاری و ساری ہے۔ بھارت شروع دن سے پاکستان مخالف کارستانیوں میں مصروف عمل ہے، لیکن ان تمام تر سازشوں کے پکڑے جانے کے باوجود بھارت آج تک اپنے گناہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ یہ بجا کہ بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر بھارتی وزیراعظم مکتی باہنی بنانے، ان کی مدد کرنے اور پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کا اعتراف جرم کر لیتا ہے، مگر دنیا ماننے کو تیار نہیں تھی، لیکن جب سے بھارت کے مکروہ کھیل میں تیزی آئی ہے اب بھارت کے بھیانک چہرے سے پردے اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔ بھارت کایہ مکروہ کھیل پچھلے تین برسوں میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی دو تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ہندوانتہا پسندوں کا بھارتی اقتدار سنبھالنا ہے۔ مودی بذات خود ایک تعصب پسند اور انتہا پسند ہندو ہے اور اس کی کُلی سیاست کا انحصار پاکستان مخالفت پر ہے۔ جب سے مودی صاحبِ اقتدار ہوا ہے بھارت پاکستان مخالف ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ بھارتی وزیردفاع اجیت دوول کی وہ بریفنگ بھی منظر عام پر آ چکی ہے جس میں اس نے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں بھارت کی منصوبہ سازیوں کا اعتراف کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام مدھیو کے اکھنڈ بھارت کے عزائم بھی عیاں ہیں۔دوسری وجہ، امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے۔ بھارت اور امریکا کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک قربتیں اس عزم کا کھلا اظہار ہے کہ وہ پاکستان مخالفت میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ امریکہ افغانستان اور بلوچستان میں اپنے مفادات کی جنگ بھارتی کاندھوں پر بندوق رکھ کر لڑ رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیچھے بھی یہی امریکہ ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ برادر ملک افغانستان میں بھی اس وقت بھارت نواز حکومت برسراقتدار ہے۔ یہ پاکستان کی بجائے بھارت کی ہم پلہ اور ہم نوا نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اس کے لیے اسے امریکہ اور اسرائیل کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ تیسری وجہ، پاک چین قربتیں ہیں، اقتصادی راہداری ایک گیم چینجر منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ بھارت کی معاشی موت ثابت ہو سکتا ہے اور امریکہ بھی نہیں چاہتا کہ چین اس راہداری کے ذریعے مشرق وسطیٰ تک رسائی حاصل کر سکے۔ یوں اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بھی دونوں ممالک کمربستہ ہیں اور بھارت صف اول میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک طرف بلوچستان میں آگ لگا رہا ہے۔ علیحدگی پسندوں اور ناراض بلوچوں کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب کراچی میں خون ریزی سے پاکستان کی معاشی شہ رگ کاٹنا چاہتا ہے اور اس کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی اپنا بھیانک کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے جاسوس افغانستان میں بیٹھ کر، کراچی اور بلوچستان میں رہ کر کارستانیوں میں مصروف عمل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کیا اس سے ہمارے انٹیلی جنس ادارے، ہماری حکومتیں اور ہماری افواج غافل ہیں؟ یقینًا نہیں۔ ہمارے حکمرانوں، عسکری قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کو بخوبی علم ہے۔ آپ کو یاد ہوگا 15؍ اپریل 2015ء کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ میں کھڑے ہو کر واضح طور پر انتباہ جاری کیا تھاکہ بیرونی قوتیں اور بین الاقوامی ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے سے باز آ جائیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے مددگاروں کو منہ کی کھانا پڑے گی اور افواج پاکستان کی ریاستی رِٹ کی بحالی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ 5مئی 2016 کوکورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان کے اندردہشتگردی میں ـ’’را‘‘ ملوث ہے۔ 9 مارچ 2016ء کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بلوچستان اور فاٹا میں کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اسی طرح وزیردفاع خواجہ آصف، وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں، مگر پاکستان کے پاس پہلے بھارتی جاسوسی کے اتنے ٹھوس ثبوت نہیں تھے۔ ہاں پاکستانی شہریوں، علیحدگی پسندوں اور ناراض بلوچوں کے استعمال کے ثبوت ضرور تھے۔ بھارت کے عام شہریوں کے جاسوسی کے ثبوت بھی پاکستانی اداروں کے پاس تھے، مگر اس بار ایک حاضر سروس بحریہ کے فوجی کی گرفتاری بہت بڑا ثبوت ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا پاکستان اس حوالے سے اس سے پہلے امریکہ کو یہ ثبوت فراہم کر چکا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف امریکہ میں جان کیری کو بھارتی سازشوں سے آگاہ کر چکے۔ ملیحہ لودھی کے ذریعے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کو بھی بھارتی مداخلت کے ثبوت دستاویزی شکل میں پیش کر چکی ہیں، لیکن ابھی تک امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یہ ردعمل آئے گا بھی نہیں کیونکہ جب امریکہ بھارت کی پشت پر ہوگا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے وہ بھارت کو لگام ڈالے ۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ پاکستان کو پہلی بار ایسا بھارتی فوجی ہاتھ لگا ہے جو ’’را‘‘ کے لیے کام کر رہا تھا۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر کلبھوشن سدہیر یادوو، عرف مبارک حسین پٹیل نمبر 41558Z جو ’’را‘‘ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا کو 3 مارچ 2016 ء بلوچستان کے علاقہ ماشکیل سے ایک کائونٹر انٹیلی جنس آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کے خلاف جاسوسی اور تخریب کاری کے جرائم کی وجہ سے فیلڈ کورٹ مارشل جنرل میں، پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت اس کا مقدمہ چلایا گیا۔ فیلڈ کورٹ مارشل جنرل نے اسے تمام جرائم کا مرتکب قرار دیا اور اسے موت کی سزا سنائی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے ۔ کلبھوشن نے فیلڈ کورٹ مارشل جنرل اور مجسٹریٹ کے روبرو اعتراف کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اسے بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاری، دہشت گردی کرنے کی منصوبہ بندی کرنے، رابطے کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا ٹاسک دیا تھا۔ واضح رہے کہ کلبھوشن یادیو نے گرفتاری کے بعد ایک ویڈیو میں اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013ء میں خفیہ ایجنسی ‘را’ میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔ سینٹ کے حالیہ اجلاس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے کہا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو بھارت کے حوالے کرنے کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی تجویز زیرغور ہے۔ بھارتی ایجنٹ نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے والے سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کو سزا شرپسند عناصر کے لئے وارننگ ہے۔ بھارت پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ پاکستان کو مغربی سرحد سے بھی بھارتی جارحیت کا سامنا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ہمارا خیرخواہ نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کو سپانسر کر رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ افغانستان کی ایجنسی این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کر رہی ہیں۔ بھارتی حکومت کلبھوشن یادیو کی سرپرستی کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن نے پاکستان میں کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے۔ بھارتی جاسوس کی سزائے موت قانون کے مطابق ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والوں سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ کلبھوشن کی سزائے موت کے فیصلے سے بلوچستان میں دہشت گردی ختم ہو گی۔ قانون کی پوری فورس دشمنوں کے خلاف حرکت میں آئے گی۔ دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا گفتگو میں کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کیخلاف سزائے موت کے فیصلے کو پاکستان کی جیت تصور کرتا ہوں۔ کلبھوشن یادیو ایک آدمی کا نام نہیں، ایک آرگنائزیشن کا نام ہے جو را ہے۔ بلوچستان میں را اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ سے دہشت گردی ہو رہی تھی۔ اس فیصلے سے بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب بھارتی جاسوس کل بھوشن کون تھا؟ کہاں سے اور کب آیا؟ بھارتی میڈیا نے خود سچائی بیان کر دی۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، کل بھوشن یادیو نے نومبر 2003ء میں پونے سے پاسپورٹ بنوایا جس پر اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔ نیوی میں کل بھوشن کے ساتھی اسے فراڈ شخص سمجھتے تھے جو لمبے لمبے عرصے تک غیرحاضر رہتا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، پاسپورٹ پر دیا گیا کل بھوشن کا گھر کا ایڈریس بھی نامکمل تھا۔
اس کے بیرون ملک منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے وسیع اشارے بھی ملے ہیں۔ کل بھوشن ممبئی کے ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس کا بیٹا ہے۔ اخبار کے مطابق، ایران میں بھی اس کی سرگرمیاں مشکوک تھیں۔ ایران نے کلبھوشن کی سرگرمیوں کی تحقیقات سے بھارت کو آگاہ بھی کر دیا تھا.
جبکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو کرتوتوں کی سزا ملنے پر بھارت کو آگ لگ گئی ۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے گیڈر بھبکیاں دینا شروع کر دیں ، پاکستان نتائج پر غور کرے ، تعلقات متاثر ہونے کی دھمکی دے دی۔ راجیہ سبھا کے اجلاس میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے جاسوس کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دیا ، کہتی ہیں،پاکستان بعد کے نتائج پر غور کرے ، جاسوس کی پھانسی سے دو طرفہ تعلقات متاثر ہونگے ۔ سشما سوراج کا کہنا تھا کلبھوشن کی سزا کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کہیں گے ، کلبھوشن کو بچانے کے لیے اچھے وکیل کے ساتھ صدر تک بات لے جائیں گے ۔ ادھر بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی کلبھوشن کی سزا پر آپے سے باہر ہوگئے ، دعویٰ کیا کہ انصاف کے تقاضے مدنظر رکھے بغیر کلبھوشن کو سزا سنائی گئی ہے ۔ ، جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں سزائے موت سنائے جانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی صحافی جسکیرت سنگھ نے کہا کہ بھارت میں کلبھوشن کی سزائے موت کے معاملے کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش پر زور دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ اگر کل بھوشن عام شہری تھا تو جعلی نام سے کاغذات بنوا کر پاکستان کیوں آتا تھا ؟کیا کل بھوشن چاہ بہار ،ایران میں مچھلیوں کا بزنس کرتا تھا ؟ آج تک بھارت کے کئی نامی گرامی ایجنٹ پکڑے گئے بھارت نے اتنے بڑے ایجنٹوں کی گرفتاری پر شور نہیں مچایا تو کل بھوشن پر کیوں ؟حالانکہ سربجیت سنگھ بھی ایک بڑا ایجنٹ تھا لیکن انڈیا نے اسکی بہن کو آگے لگایا آخر ایک جعلی نام سے کاغذات بنوانے والے سے بھارت کو اتنی ہمدردی کیوں ہے ؟ ایک عام شہری کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ ایک عام شہری کے لیے بھارت وہ حق کیوں مانگ رہا ہے جو کہ صرف سفارتکاروں کو دیا جاتا ہے ؟ اگر کل بھوشن ایک عام شہری تھا تو کراچی میں حاجی بلوچ کے ساتھ اس کے تعلقات کیا معنی رکھتے ہیں؟ ان سب سوالوں کا یہی جواب ہے کہ کل بھوشن پاکستان میں بھارتی دہشتگردی کا سرغنہ تھا جس کے لیے بھارت اس قدر شور مچا رہا ہے۔ کل بھوشن کی گرفتاری جہاں پاکستان فوج اوردفاعی اداروں کی قربانیوں اور مہارتوں کا نتیجہ ہے وہیں بھارتی فوج کی دہشتگردی کا نشانہ بنے معصوم شہریوں کا خون کا بدلہ ہے پاک فوج مادر وطن پر ہزاروں بیٹے قربان کرکے ملک میں امن کی فضا بحال کر رہی ہے، پاکستانی شہریوں کے خون میں لتھڑے ہاتھوں والے اس بھارتی ایجنٹ کی پھانسی پر جہاں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا شکریہ ادا کرنے کا وقت ہے وہیں کمانڈر انچیف مسلم افواج سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے بلند ترین حوصلے اور اقدامات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی کا یہی مطالبہ ہے کہ اس ملک دشمن ایجنٹ کو جلد از جلد پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے وہ ایک عظیم دن ہوگا جب ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔