پریشن ضرب عضب ایک مشترکہ عسکری آپریشن ہے ، جو کہ تحریک طالبان پاکستان سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف افواج پاکستان کی جانب سے مورخہ 15جون 2014 ء کو شروع کیا گیا ۔ ضرب عضب شمالی و زیر ستان سمیت پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردوں اور ریاست کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں شروع ہوا۔ جس کی وجہ 8جون 2014 ء کو کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والا حملہ بنا ، جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک مومنٹ ازبکستان نے قبول کی۔ اس آپریشن میں فوج کے 30,000جوان شامل ہیں۔ اس آپریشن کا مقصد پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اور تمام ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند جو کہ ان علاقوں میں روپوش ہیں کا خاتمہ ہے۔ ضرب عضب کو مکمل سیاسی ، عسکری اور عوامی حمایت حاصل ہے ۔ ضرب عضب کی اب تک کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ملک میں آج دہشت گردی کی شرح گزشتہ چھ سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔
شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن کا نام حضرت محمد ؐ کی تلوار ’’العضب‘‘ کی مناسبت سے ’’ضرب عضب‘‘ رکھا گیا ہے ۔ العضب ایسی تلوار کو کہا جاتا ہے جو فیصلہ کن اور کاری وار کرتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس آپریشن کا نام اسی مناسبت سے رکھا گیا ہے ۔ یہ آپریشن بھی دشمنوں کے خلاف فیصلہ کن اور منطقی ثابت ہوا۔
اس آپریشن میں افواج پاکستان نے پہلی مرتبہ ایک نئی حکمت عملی “Seck, Destroy, Clear, Hold” استعمال کی ہے۔ اس آپریشن میں پاک فضائیہ اور بری فوج مشترکہ طور پر حصہ لے رہی ہیں۔
آپریشن کے پہلے مرحلے کی ابتدا ء 15جون 2014 ء کو پاک فضائیہ کی شمالی وزیرستان میں بھر پور فضائی حملوں سے ہوئی۔ آئی ایس پی آرکی پریس ریلیز کے مطابق اب تک آپریشن ضرب عضب میں تقریباََ 3500دہشت گرد مارے گئے ۔ 837پنا ہ گاہیں تباہ کردی گئیں۔ گذشتہ 18ماہ میں 13200سے زیادہ خفیہ معلومات اور 21,192دہشت گرد گرفتار ہوئے۔ یہ آپریشن ابھی بھی جاری ہے۔ اس آپریشن میں افواج پاکستان اوردیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ اس آپریشن میں افواج پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 448افسران اور اہلکار شہید اور 1914 زخمی ہوئے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان سے متعدد اسلحہ اور بارود بنانے والے کارخانے بھی بر آمد ہوئے ، جن کے ذریعے ملک بھر میں خودکش حملے اور دیگر دھماکے کروائے جاتے تھے۔ اسکے علاوہ بڑی مقدار میں ملکی اور غیر ملکی اسلحہ بھی برآمد ہوا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن ضرب عضب 90%مکمل ہو چکا ہے اور اس کا آخری مرحلہ پاک افغان سرحدی علاقے میں واقع وادی شوال میں جاری ہے۔ جس کو افواج پاکستان تیزی سے کلئیر کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
8دسمبر 2014 ء کو فوج نے آئی ڈی پیز کو واپس ان کے گھر جانے کا اشارہ دے دیا ۔ آرمی چیف جناب راحیل شریف کے مطابق آئی ڈی پیزکی جلد سے جلد واپسی ان کی اولین ترجیح ہے۔ 31مارچ 2015کو آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل شروع ہوا۔ پہلے روز 219آئی ڈی پیزاپنے 62خاندانوں کے ساتھ واپسی کے لئے روانہ ہوئے ۔ واپسی کے پہلے مرحلے میں 24اپریل تک 1200کے قریب خاندان اپنے گھروں کو واپس جاچکے تھے ۔ ہر خاندان کو ۲۵۰۰۰ روپے روپے نقد اور ۱۰۰۰۰ روپے سفری اخراجات کے لئے دئیے گئے ۔ اس کے علاوہ ہر خاندان کو چھ مہینے کا راشن اور دیگر گھریلو اشیاء بھی دی گئیں۔ ۴مئی ۲۰۱۵ ء تک واپس جانے والے خاندانوں کی تعداد ۲۳۰ ہوگئی۔
آپریشن ضرب عضب کو مکمل عوامی و سیاسی حمایت حاصل ہے۔ جس کا اعتراف خود ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں نے کیا ہے۔ علاوہ ازیں قبائلی عمائدین بھی اس آپریشن سے کافی متاثر اور مطمئن نظر آتے ہیں۔ ۲۲ جون ۲۰۱۴ ء کو تقریباََ ۱۰۰ علماء کرام نے ایک متفقہ فتوی پیش کیا۔ جس میں اس آپریشن کو جہاد قرار دیا گیا ۔ آپریشن ضرب عضب کو بین الاقوامی سطح پر بھی قابل ذکر پذیرائی حاصل ہوئی۔ اقوام متحدہ نے بھی پاکستان کے آپریشن ضرب عضب کو شروع کرنے کے فیصلہ کو سراہا۔ مختلف بین الاقوامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے بھی ضرب عضب کو خطہ میں دہشتگری کے خاتمے کے لئے ایک موثر اور بہترین حل کے طور پر پیش کیا، اور افواج پاکستان کی اس کاوش کو سراہا ۔ ملکی و غیر ملکی میڈیا کے بیشتر نمائندے بذات خود شمالی وزیر ستان میں جاری آپریشن کو قریب سے دیکھ کر آچکے ہیں، جن کی رپورٹ انہیں نے اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں پرپر نشر کی.