آج میری نظر کالج میں ہونے والے تقریری مقابلے کے بینر پر رک سی گئی۔ تقریر کا عنوان تھا “ قائد کا خواب- تعبیر بنا پنجاب“ اور مزید جاننے پر معلوم ہوا کہ یہ تقریری مقابلہ حکومتِ پنجاب کے تعاون سے صوبائی سطح پر منعقد کروایا گیا تھا۔ اور طلباء و طالبات لاشعوری طور پر صوبائیت کو فروغ دینے کی سازش کا حصہ بن گئے۔ ٢٧ نومبر ١٩٤٧ کو ‘‘صوبائی تعصب“ کے نقصانات کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے فرمایا “ یہ درست ہے کہ ہر شخص کو اپنے صوبہ اور شہر سے محبت ہونی چاہیے لیکن آپ کو صوبہ اور ملک کی محبت میں تفاوت نہیں محسوس کرنا چاہیے۔ ملک کی محبت ہی ترقی کی اصل اساس ہوسکتی ہے۔ عصبیت اور صوبہ پرستی سب سے بڑی لعنت ہے اس لعنت کو سختی سے ختم کر دینا چاہیے۔ آج سے آپ سندھی، بلوچی، پٹھان، بنگالی، پنجابی نہیں بلکہ سب پاکستانی ہیں۔ آپ کا پاکستانی ہونا ہی آپ کے لئے فخر وامتیاز کا باعث ہے۔“ قائد نے تو ہمیشہ پاکستان کی بات کی اور اسی کے لئے تگ و دو کی ، قائدِ اعظم کا خواب تو خوشحال پاکستان تھا نہ کہ کوئی ایک صوبہ۔ حکومتی سطح پر صوبائیت کو فروغ دینا انتہائی نا مناسب طرزِ عمل ہے۔
حصولِ پاکستان کا مقصد ایک ایسے آزاد ملک کا قیام تھا جہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے کی تعمیر ہو سکے۔ جہاں اخلاقی اقدار کو بالادستی حاصل ہو۔ جہاں مردوعورت کی عزت وآبرو محفوظ ہو۔ اور جہاں قانون کی حاکمیت ہو مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اِن مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں جب آج کا پاکستان دیکھتی ہوں تو میرا دل خون کےآنسو روتا ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے پاکستان کو نوچتے رہے، اسکے درو دیوار ہلاتے رہے۔ قائد نے کہا تعصب نہ ہو، مگر ہم تعصب کا شکار ہو گئے۔ کبھی ہم نے پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور مہاجر کے نام پر ملک کو تقسیم کیا تو کبھی سُنی اور شیعہ کی بنیاد پر بٹ گئے۔ آج ہر طرف رشوت اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔ عمر رسیدہ لوگوں کو پنشن کے حصول کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑاہونا پڑتاہے۔ وزیراعظم کی کھلی کچہری میں بیروزگار نوجوان خود کو آگ لگا لیتے ہیں۔ کبھی درسگاہوں، مساجد، امام بارگاہوں کو دہشت گرد نشانہ بناتے ہیں، تو کبھی لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کردیا جاتاہے۔
قائدِاعظم نے اپنی صحت کی قربانی دی تا کہ ہم صحت یاب ہو سکیں ، اُنہوں نے نیند کو خود پر حرام کیا تا کہ آرام کی نیند مسلمانوں کا مقدر بن سکے۔ قائد تو پاکستان کے محسن تھے ، وہ محسن جس کا اعتراف خود اغیار نے بھی کیا۔ ڈاکٹر اجیت جاوید نے اپنی کتاب ‘‘سیکولر اینڈ نیشنلسٹ جناح ‘‘ میں قائد کی جرأت اور ایمانداری کا اعتراف کیا ہے۔بیو رلے نکلسن ، ممتاز صحافی نے اپنی کتاب ‘‘ ورڈکٹ آف اینڈیا“ میں قائد کو ایشیا کی عظیم شخصیت قراردیا۔
اس شخص نے دنیا کے آگے، ہم سب کی وکالت ایسے کی
دنیا کی عدالت میں لوگو، وہ ہم سب کی پہچان بن
ا
جب محمد علی جناح سے قائدِاعظم بنتے ہیں تو ٣ روپے کا موزہ لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کرتے ہیں کہ غریب مسلمان ملک کے حکمران کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنا مہنگا موزہ پہنے۔ قائد جب شدید علیل تھے تو اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خاں کی امریکہ علاج کی پیشکش یہ کہہ کہ مسترد کر دی کہ میرے غریب ملک کا خزانہ ایسے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان میں موہن داس گاندھی کے قتل کے بعد قائد کو گورنر جنرل ھاؤس کے لئے سیکیورٹی کی پیشکش کی گئی تو آپ نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ پیسے کا ضیاع گناہ ہے اور اگر سرمایہ سرکاری خزانے کا ہو تو اس کا ضیاع بدترین گناہ ہے۔ کاش کہ آج کے حکمران بھی قائدِاعظم کے طرزِعمل کو محض تقریروں کی حد تک ہی نہ اپنائیں بلکہ عملی طور پر بھی اپنائیں۔ اور پاکستان کو قائد کا پاکستان بنائیں جہاں سب اقلیتیں محفوظ ہوں، جہاں کرپشن جیسی لعنت نہ ہو ، جہاں سب امن اور سکون سے زندگی بسر کریں۔