ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت ممنون حسین نے وزیر اعظم عمران خان سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔ حلف برادری کے بعد نو منتخب وزیر اعظم عمران خان وزیراعظم سیکرٹریٹ پہنچ گئےجہاں انہوں نےوزیراعظم آفس کاچارج سنبھال لیا۔ وزیر اعظم عمران خان کو وزیر اعظم ہاؤس کے اسٹاف نے خوش آمدید کہا، انہوں نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی۔
اس موقع پر وزیراعظم آفس کے اسٹاف نے وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ بھی دی۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف 2018ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے اور اس کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد آج حلف اٹھالیا۔
عمران خان کی حلف برداری نے پورے ملک میں خوشی کی لہر دورا دی مگر کچھ بیرونی حلقوں میں اس واقعہ کو نہایت پریشانی سے دیکھا جارہا ہے۔ اس پریشانی کا تعلق غالباً اس بین الاقوامی نظام سے ہے جس کے زریع مغرب باقی ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھتا ہے۔ اس نظام کی جڑیں اس وقت تک جاتی ہے جب انگریز برِصغیر پاک و ہند پر حکومت کرتا تھا۔
برطانیہ اور دیگر یورپی سلطنتیں اقتصادی وجوہات کے لئے برصغیر پر قابو پانے ائیں. اس کو یہاں موجود خام مال کی ضرورت تھی جس کے زریع وہ اپنے معیشت کو مضبوظ بنائے. وہ کپاس، پٹسن اور ریشم جیسے مقامی خام مال کو مانچسٹر میں اپنی فیکٹریوں میں استعمال کرتے تھے، انہیں مصنوعات میں تبدیل کرتے اور پھر آمدنی حاصل کرنے کے دنیا بھر میں فروخت کرتے. اس جابرانہ حکمتِ عملی عمل کے ذریعہ خود تو امیر ہوگئے مگر ان کی محکوم زمینین جیسے برِصغیر غربت کی دلدل میں ڈوب گئے.
ان زمینوں پر اپنا غاضبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے، وہ مقامی آبادی کے کچھ ٹولوں کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کرنے لگے. ان کے وفادار مقامی افراد کو بدلے میں بہت ساری جائیداد اور طاقت دی جاتی تھی جبکہ وہ ان کو اسعمال کرکے وسائل لوٹ رہے ہوتے. اس کے برعکس، جو لوگ غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف کھڑے ہوتے ان کو غدار کہہ کر سزا دیتے . سب سے بڑی مثال 1857 کی مسلح جدوجہد ہے جسے ہم جنگِ آزادی کے طور پر یاد کرتے ہیں لیکن برطانیہ اسے غدر کہتا ہے.
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد واقع ہونے والے حالات نے برطانیہ اور دیگر یورپی سلطنتوں کو مجبور کردیا کہ وہ باقی دنیا سےاپنا قبضہ ختم کریں. دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے دنیا نے برٹنوڈ کے نظام کا اضافہ بھی دیکھا جس کی وجہ سے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے وجود میں ائے.
ان اداروں کی وجہ سے، سرمایہ یعنی پیسہ خام مال سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا. ان ممالک جن کے پاس نقد رقم کے ذخائر تھے، عالمی معیشت کی قیادت کرتے تھے.
اگرچہ کھیل کے قواعد بدل گئے لیکن کھلاڑیوں اور ان کے مہروں میں خاص فرق نہ آیا. مغرب اور خاص طور پر برطانیہ نے تیسرے دنیا کے حکمرانوں کا اسی طرح استعمال شروع کر دیا جس طرح انہوں نے اپنے پرانے دنوں میں کیا تھا.
یہ وفادار یا تو بدعنوانی یعنی کرپشن کے ذریعہ اپنے ملکوں کی خون پسینہ کی کمائی ان کے غیر ملکی مالکوں کو بھیجنے لگے یا پھر اپنے ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے قرضے کے جال میں جکڑ دیا جس کا سود ادا کرتے کرتے ان کی قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں.
نئے وفاداروں کو بدلہ میں مغربی مٹی پر کافی مراعات ملیں جیسے کہ مغربی بینکوں میں بڑے اکاؤنٹس اور عالیشان اثاثے مگر سب سے بڑھ کر ان وفاداروں کے ممالک کے قوانین کی سزاؤں سے تحفظ تھا. اس کے برعکس جنھوں نے اپنے ممالک کو بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کی کوشش کی ان کو مختلف حیلے بہانوں سے عبرت کا نشان بنادیا . ایک اہم مثال یہ ہے کہ ایران کے وزیر اعظم محمد موصدق، جن کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے برطانوی تسلط سے اپنے ملک کے تیل کے ذخائر کو آزاد کرانے کی کوشش کی. جواب میں، برطانیہ اور امریکہ نے ایرانی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 1950 کے دہائی میں رضا شاہ پہلوی کو ان کی جگہ نصب کروادیا.
پاکستان مختلف نہیں تھا، ہم نے دیکھا ہے کہ جمہوری رہنماؤں نے کیسے ناجائز زرائع سے اثاثے بنائے اور بیرونِ ملک جائدادیں خریدیں. 1990 کی دہائی سے شریف خاندان کے بدعنوانی کے بارے میں برطانوی خبرنویسوں میں بہت چرچا ہے لیکن شریفوں کو لندن میں ایک منی رایئونڈ بنانے سے کسی نے نہیں روکا. برطانوی اخبارات نے اپنے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے کہا کہ زرداری کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد اپنی انگلیوں کوگن لیں، لیکن اپنے غیرملکی دوروں کے دوران زرداری صاحب بہت سارے عیش و آرام کا لطف اٹھاتے رہے اور ہیں. سرکاری ٹی وی بی بی سی نے اعتراف کیا ہے کہ الطاف حسين نہ صرف منی لاؤنڈرنگ اور انسانی اسمگلنگ کے جرائم میں شامل ہیں بلکہ دہشت گردی کے کاروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس کو برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل ہے.
پوری دنیا گواہ ہے کہ کس طرح بیرونی زمین اور حکومتیں میثاقِ جمہوریت اور این ار او کو بنانے کے لیے استعمال ہوئی۔ انہی دونوں معاہدوں کے زریع 2008 کے بعد”جمہوری انتقام” کے دور میں پاکستان پر حکومت کی گئی. اس ایک دہائی میں پاکستان نے بدترین بدعنوانی، اقتصادی بحران اور دہشت گردی دیکھی.
مگر بالاخر پاکستانی عوام نے جولائی کے انتخابات میں اس کرپٹ ٹولے کو باہر پھینکا اور پی ٹی ائی کو موقع دے کر عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کردیا۔ اس ایک عمل کے زریع صدی پرانی بساط پر ایک نئے کھلاڑی کی آمد ہوگئی جو کہ پاکستانی عوام ہے۔ اب پرانے کھلاڑیوں کو پریشانی لاحق ہے کہ اس نئے کھلاڑی نے اتے ہی جو داؤ کھیلا ہے اس سے صدیوں پرانا کھیل اسی کے حق میں لپٹتا نظر ارہا ہے۔