گیارہ ستمبر 2001ء تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جو نہ صرف امریکا میں تین ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کا باعث بنا بلکہ اسی دن نے مسلم خطے کو دہشت گردی کے نام پر ایک ایسی آگ میں جھونک دیا جس نے آج تک کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے مغرب میں مسلمانوں کو محض دہشت گردوں کے طور پر دکھانا شروع کیا اور مغربی ممالک میں اسلام فوبیا نے جنم لیا، نائن الیون کے سانحے پر امریکا کو تمام مسلمان ممالک کی جانب سے ہمدردی حاصل رہی لیکن امریکا نے اس ہمدردی کو ٹھکراتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کے لیے افغانستان میں اپنی فوجیں اتاریں۔ امریکا کی یہ جارحیت افغانستان اور عراق سمیت کئی مسلم ممالک کی تباہی اور مسلم خطے میں “مذہبی انتشار” کا باعث بنی۔ امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے نام پر شروع کی گئی اس جنگ میں کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے جو لاکھوں افراد کی ہلاکت اور بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنے۔ افغانستان میں امریکا کی مداخلت کے بعد امریکی حامی حکومت قائم ہوئی جس پر افغان طالبان نے امریکا کے خلاف باقاعدہ مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا۔ امریکا اور طالبان کی اس جنگ نے افغانستان کے چالیس فیصد بچوں کا مستقبل تاریک کردیا اور لاکھوں افغانی اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
افغانستان میں اتنی تباہی مچانے کے بعد بھی اسامہ بن لادن کو پکڑنا امریکا کا خواب ہی رہا جسے امریکا نے بعد میں پکڑنے کا ڈرامہ پاکستان میں رچایا۔ کیونکہ اسامہ بن لادن تو ایک کردار تھا جس کی مدد سے امریکا کو افغانستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملک کو اس جنگ میں جھونکنے سے گریز نہیں کیا اور امریکا کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا شروع کردی۔ دوسری جانب پاکستان میں موجود کچھ شرپسند ملاؤں نے نوجوانوں کو افغانستان جہاد کے نام پر تیار کرکے امریکا کے خلاف تیار کرنا شروع کردیا۔ کئی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ لگائے گئے اور سیکڑوں مدرسوں میں جہاد پر اکسانے کا کام شروع کیا گیا، جس میں امریکی نظام سے نفرت اور ہم نظریہ افراد کے علاوہ ہر ایک کو واجب القتل سمجھنے کا درس دیا جاتا رہا، ایسے مدارس کو غیر ممالک کی جانب سے باقاعدہ فنڈنگ بھی کی جاتی رہی اور “جہاد” میں حصہ لینے والے افراد اور اور ان کے خاندانوں کی مالی معاونت بھی کی جاتی رہی۔ اس وقت حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟ کیا کر رہے تھے؟ یہ سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور امید بھی یہی ہے کہ تاقیامت ان کا کوئی مناسب جواب نہیں مل سکے گا۔ افغانستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کو پاکستان نے جگہ دی اور کئی لاکھ افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری زبردستی اپنے ذمہ لے لی۔ افغان جہاد سے واپس آنے والے افراد ان پڑھ تھے اور جنگ کے علاوہ انہیں کچھ آتا نہیں تھا، ایسے افراد کو حکومت نے نظر انداز کیا مگر بھارت نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 2007 ء میں پاکستان میں باقاعدہ ان بے روزگار جہادیوں اور ان پڑھ افراد پر مشتمل تحریک طالبان پاکستان نامی دہشت گرد تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، تحریک طالبان پاکستان، پاکستان میں بھارتی مداخلت کا واضح ثبوت ہے جس کو پاکستان کے حکمران عالمی سطح پر ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ بھارتی سرٹیفیکٹ یافتہ مولوی معصوم قبائلیوں کو اسلام کے نام پراسلام سے ہی دور کرتے رہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو بھی نائن الیون حملے کی ناقابل تلافی قیمت چکانا پڑی۔ افغانستان کے بعد امریکا نے پاکستان میں بھی ڈرون حملے شروع کردئیے اور یوں پاکستان میں اس جنگ کو مزید تقویت ملی، امریکا مخالف مولوی طالبان حامی بن گئے اور ملک کے اندر بڑے پیمانے پر تباہی کا آغاز ہوگیا۔ پاک افواج کی جانب سے پے درپے کیے جانے والے آپریشن کے باوجود پاکستان میں آج بھی اس گروہ کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے اور اب تک ساٹھ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ ہزاروں بچوں کے روشن مستقبل برباد ہوگئے اور آج بھی پاک افواج ان دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر “ضرب عضب” میں مصروف ہے۔
دہشت گردی کے خلاف مکمل طور پر کامیابی حاصل نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی غیر سنجیدگی ہے۔ پاکستان کی حکومت نہ امریکا کے سامنے ہی کوئی ٹھوس موقف اپنارہی ہے اور نہ ملک میں مقیم تیس لاکھ افغان مہاجرین سے متعلق فیصلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ غربت اور ناخواندگی کے باعث کئی ہزار خاندان اپنے بچوں کو کسی اسکول میں داخل کروانے کے بجائے مدارس میں پڑھنے بھیج دیتے ہیں لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اسلام کے نام پر تعلیم دینے والا مولوی ان کے لخٰت جگر کو انسانیت سوز عمل کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضرب عضب کافی نہیں بلکہ امریکا کے ان تمام ہتھکنڈوں کے خلاف سخت موقف اور ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور جہالت پر قابو پانا بھی بہت ضروری ہے۔ میٹرو بس، گرین لائن ٹرین، موٹروے اور ایسی تمام مراعات سے زیادہ اہم قوم کے ذہنی معیار کو بلند کرنا ہے، قوم کے بچوں کو بہتر تعلیم اور مثبت ماحول فراہم کرنا ہے۔ جو پاکستان میں آنے والی تمام حکومتیں کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ کبھی دہشت گردی سے نہیں کیا جاسکتا۔ مسلح دہشت گردوں کے خلاف مسلح جدوجہد کامیاب ضرور ہوسکتی ہے لیکن تعلیمی درسگاہوں میں موجود شدت پسند سوچ کے حامل افراد نفسیاتی طور پر نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کر رہے ہیں ان کے خلاف تعلیمی ضرب عضب وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کئی امریکی تجزیہ کار امریکا کی افغانستان اور عراق جنگ کو نائن الیون سے بڑی تباہی کا باعث قرار دیتے ہیں جو دنیا کی معیشت کی تباہی اور انتہا پسندی کے عروج کا سبب بنی لیکن پاکستانی حکمران عالمی سطح پر پاکستان کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام رہے اور ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کسی بھی سطح پر دیرپا اقدامات کرنے سے بھی قاصر دکھائی دئیے۔ آج بھی تیس لاکھ افغان مہاجرین حکومت وقت کے لیے ایسا مسئلہ ہے جس کے متعلق منطقی فیصلہ کرنے کے بجائے بلا کوٹالنے کے لیے ان کے قیام کی مدت میں توسیع کردی جاتی ہے۔پاکستان کی چالیس فیصد آبادی غربت میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ آج بھی کئی کالعدم جماعتیں نام تبدیل کرکے شہروں میں دندناتی پھرتی ہیں جو ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مسلح جدو جہد میں تو پاک افواج نے فتح حاصل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی لیکن دہشت گردی کے خلاف نفسیاتی جنگ میں مسلسل ناکامی کل پھر کسی ضرب عضب کا مطالبہ کرتی نظر آئے گی۔