آج جب ہم یوم آزادی کی خوشیاں منارہے ہیں تو تقریباً سات عشروں بعد بھی، کچھ ان کہی باتیں, کچھ جوابوں کے متلاشی سوال اور کچھ جسموں کی تڑپتی روحیں ہمارے اس سفر پر کچھ شکوہ کناں سی نظر آتی ہیں کہ بعض اہم معاملات جن کی اہمیت کا تعین بانیانِ پاکستان نے تحریک پاکستان ہی کے دنوں میں کر لیا تھا وہ ہماری ترجیحات کی فہرست میں نیچے ہوتے ہوتے بالکل غیر اہم کس طرح ہوگئیں؟ نظام ریاست کی بحث اس معاملہ میں سب سے اوپر ہے۔
تشکیلِ پاکستان کے ابتدائی سالوں سے لے کر آج تک قوم کونظامِ ریاست کے حوالے سے دانستہ طور پر ایک نظریاتی
مخمصہ کا شکار رکھا گیا ہے کہ آیا طرز حکومت مغربی جمہوریت کے ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر استوار کیا جائے یا مذہبی تھیوکریسی پر مبنی مُلائیت کا- ان دو اسکول آف تھاٹس کا مسلسل ٹکراؤ اور اسکی رگڑ کے نتیجے میں پھیلنے والی فکری بےچینی نے معاشرے میں نظریاتی الجھنیں پیدا کیں جن کے اثرات قوم کے مجموعی مزاج میں آج بھی واضح ہیں-
جواب کی تلاش سے پہلے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر تحریک پاکستان کے تناظر میں پاکستان کے اندرونی مخالفین کی نشاندہی کا فی دلچسپ حقیقت کو آشکار کرتی ہے، تحریک پاکستان کے دوران ہی مسلمان طبقوں میں ہی سے اس کے دو بڑے مخالف مکتبۂ فکر سیاسی منظرنامے پر طلوع ہوئے- صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے لسانی قومیت کے علمبردار لبرل اور وسطی و شمالی ہند سے وطنی قومیت کے پروردہ بعض مذہبی علماء – دونوں کی نظر میں پاکستان کا مطالبہ اور اس کے حامی نا پسندیدہ ٹھہرے – اس نا پسندیدگی کے جڑیں بعض معاملات میں نظریاتی سے زیادہ ذاتی تھیں- بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے- اس نکتے کا ذکر اس حوالے سے قابل غور ہے کہ پاکستان بننے کے بعد نظام حکومت کی نظریاتی اساس کے حوالے سے چھیڑی گئی بحث کے تناظر میں یہی دو گروہ معاشرے میں پیدا کی گئی بے چینی کے زیادہ اہم کردار ہیں، ان دونوں گروپوں نے تحریک پاکستان کے دوران گروہی تعصب کی بنیاد پر اپنا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈالے رکھا اور اب قیام پاکستان کے بعد بھی انکا سیاسی و نظریاتی قبلہ سرحد پار ہی ر ہا- ایک طرف ریاضت پسند جناح اور دوسری طرف فقط گفتار کے غازی اور تعصب کے اسیر مسٹراور مولوی – کردارقائد کے آگے گفتار دیوبند کی کیا حیثیت رہی اسکا جواب 1946 کے فیصلہ کن انتخابات میں ہو گیا جب 75 فیصد سے زیادہ ووٹ دے کر کر مسلمانانِ برصغیر نے اپنا فیصلہ گفتار کے بجائے کردار کے حق میں دیا- نام نہاد ترقی پسندوں کا اوّلین قبلہ ماسکو ٹھہراتھا جو اب دیوار برلن کے انہدام کے بعد واشنگٹن منتقل ہوچکا ہے، دوسری جانب دیوبند کی طرف سجدہ میں پڑے اِماموں کا رخ لیبیا, عراق سے ہوتا ہوا ریاض کی جانب مڑ چکا ہے۔
قائداعظم کی علالت پھر رحلت نے مملکت میں وقتی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاست کا نظام کار چلانے کے لیے ایڈہاک ازم کی روش کی روایت کی بنیاد ڈالی گئی جو آج ستر سال گزرنے کے باوجود بدستور قائم ہے- لیاقت علی خان کی شہادت ، پچاس کی دہائی میں جاری سیاسی جوڑ توڑ کے عرصے میں تدوین کیا گیا 1956 کا آئین، گو کہ تمام سوالوں کا جواب نہ بھی سہی پردرست سمت میں ایک نیم دلانہ شروعات ضرور تھی- پہلے مارشل لاء کا نفاذ آئینی و جمہوری جدوجہد کے ذریعے ایک قانون دان کے ہاتھوں قائم ہوئی مملکت کے لیے شدید دھچکا اور پیچھے کی طرف کے سفر کا باقاعدہ آغازتھا- بے شک اس دور میں عمومی معاشی بہتری کے اشارئیے نظر آئے پر اندرونِ خانہ سیاسی عمل پر لگائی گئی قد غنیں اور 1962 کا آئین ملک کی 56 فیصد پسماندہ اکثریت میں علیحدگی کے جراثیموں کو مضبوط کرتا گیا ۔ معاشی معاشرتی غیرمساوات پر بنی پالیسیسز اور فرد کی حکمرانی کو قائم رکھنے کی غرض سے کی گئی نا اہل اور بدعنوان عناصر کی سیاسی اور انتظامی عہدوں پر تقرریاں مزید خرابی کا باعث بنتی چلی گئیں اور آخر انجام کار بیرونی عناصر کو ملکی معاملات میں کھلی مداخلت کا پروانہ دے دیاگیا جس کا نتیجہ ملک کے مشرقی حصہ کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔
تشکیل پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کی دلی خواہشوں کا آئینہ دار اور ایک طویل منطقی ارتقائی جدوجہد کا نتیجہ ہے- جس کا بنیادی نکتہ مسلمانانِ ہند کے سیاسی, سماجی, مذہبی اور معاشی مفادات کا تحفظ اور ریاست مدینہ کی طرزپر ایک ایک ایسی جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ مسلم فلاحی نطام حکومت کا قیام ہے جس میں اکثریت کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو بھی انکے جائزحقوق فراہم کرنے کا اہتمام ہو- بانئ پاکستان کی 11 اگست کی تقریر اسی ذیلی نکتے کی فراست سے تشریح کرتی نظر آتی ہے کہ جس میں قائداعظم نے قیام پاکستان اور تقسیم ہند کے فوراً بعد کے حالات کے پس منظر میں پاکستان میں موجود اقلیتوں کو انکے مذہبی ومعاشی حقوق کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی لیکن بعض عناصردہایئوں سے دیدہ و دانستہ اس خطاب کے نکات کو توڑ مروڑ کر حقائق کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف رہے ہیں- نتیجتاً ایک لامتناہی بے ثمر بحث کی شروعات ہے جس کا انجام محض کج بحثی پر مبنی مختلف نکتہ ہائے نظر کی آپس کی رگڑ اور اسے پیدا ہونے والا معاشرتی کھنچاؤ ہے جس نے مزید پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے-
سیکولر طبقہ قائد کی 11 اگست کی تقریر کی سیاق و سباق سے ہٹ کر گمراہ کن لفظ بہ لفظ تشریح کے ذریعےلادینیت پر مبنی ایک ایسے نظام کے فروغ کی حمایت کرتاہے جس نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پچھلے سو سالوں میں کروڑوں انسانوں کی جان لی ہے- پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جان گنوانے والوں کو موت کے کنوئیں میں دھکیلنے والا کوئی مذہبی رہنماء نہیں بلکہ سیکولر قومی ریاستیں تھیں جنہوں نے اپنے اپنے مفادات کے تابع ہو کر انسانیت کے جسم پر لاتعداد زخم لگائے – ان دو بڑی عالمی جنگوں بعد ان کے بطن سے جنم لینے والے دیگرعلاقائی تنازعات نے انسانی لہو سے رنگین کئی داستانیں رقم کیں- کشمیر ,کوریا, لاطینی امریکہ, جنوبی امریکہ, مشرقی ومغربی جرمنی, ویتنام اور مشرقی وسطٰی میں بچھائی گئی خونی بساط لاکھوں معصوموں کی جان لے گئی-
تاریخ کے اس طائرانہ جائزہ کے بعد جو منطقی سوال دماغوں میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرز حکمرانی اور ریاستی نظام پر چل کر ہم نے یہ نتائج حاصل کیے کیا وہ واقعی پاکستان کے لوگوں کے معاشرتی مذہبی اور معاشی مزاج سے ہم آہنگ ہے؟ یا وہ نظام جس کے نفاذ کی حمایت اور دلیل اقبال اور جناح کے افکار سے ملتی ہے- بے شک نفاذ نظام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معاشرہ کی بتدریج تربیت اورحکومتی سطح پر ایسے اقدامات کے فروغ کی ضرورت ہے جو قیام پاکستان کے بنیادی نکتہ یعنی ریاستی سطح پر ایک اسلامی فلاحی طرز حکومت کا قیام ممکن بنائے جو فرقہ ورانہ تعصب سے مارواء اور ملک کی تمام مذہبی اقلیتوں اور لسانی اکائیوں کے لیے بھی یکساں طور پر قابل قبول ہو۔