“میں نے اپنے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ میرے بارہ سال کی شبانہ روز فکر و تعمق کا نتیجہ ہے۔ میں نے اس کی تیاری اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا، جاؤ اپنی بیویوں کے تابناک چہروں کو، اور اپنے بچوں کی مسکراہٹ کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر فیصلہ کرو، اپنی تجارت اور ذرائع معیشت کی ساری تباہیوں کا تصور کر کے ایک مرتبہ تصفیہ کرو، مسلمانو! جو تصفیے جوش کے عالم میں دوسروں کی تقلید میں کر دئیے جاتے ہیں بسااوقات آنی اور اس لئے فانی ہوتے ہیں۔ آج ہمیں ان کی ضرورت نہیں جو شجرِ ملت میں پھول بن کر چمکنا چاہتے ہوں اور پھل بن کر کام و دہن کو شیریں کرنا چاہتے ہوں، ہمیں ان کی ضرورت ہے جو کھاد بن کر زمین میں جذب ہوتے ہیں اور جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں ، جو مٹی اور پانی میں مل کر رنگین پھول پیدا کرتے ہیں ، جو خود فنا ہوتے ہیں اور پھلوں میں لذت و شیرینی پیدا کرتے ہیں۔ ہم کو ان کی ضرورت نہیں جو کاخ و ایوان کے نقش و نگار بن کر نگاہِ نظارہ باز کو خیرہ کرنا چاہتے ہوں۔ ہم ان بنیاد کے پتھروں کو چاہتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زمین میں دفن ہو کر اور مٹی کے نیچے دب کر اپنے اوپر عمارت کی مضبوطی کی ضمانت قبول کرتے ہیں۔”
یہ 1943ء کے منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر کی گئی اختتامی تقریر میں سے لیا گیا ایک اقتباس ہے۔ جس کے مقرر نے ایک جاگیردار ہونے کے باوجود بنیاد کا پتھر بننا پسند کیا۔ جن کا شمار قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ جو اپنے زمانے کے ایک شعلہ بیاں مقرر اور خطیب تھے۔ جو قائد اعظم کی تقاریر کا فی الفوراور درست اردو ترجمہ کر دیا کرتے تھے۔ جنہیں دنیا ” نواب بہادر یار جنگ” کے نام سے جانتی ہے۔
ان کا اصلی نام سعدی خان تھا۔ وہ فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ نسلاً سدوزئی پٹھان تھے۔ والدہ کا انتقال ان کی پیدائش کے چند روز بعد ہی ہو گیا تھا ، 18 برس کی عمر کو پہنچے تو والد بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ اس کم عمری میں انہیں اپنی جاگیر کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا، جو کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، لیکن ان کی انتظامی صلاحیتوں کی بدولت کچھ ہی عرصے میں تمام قرضوں سے آزاد ہو گئی۔ ان معاملات سے فرصت کے بعد انہوں نے حج کا قصد کیا اور بہت سے مسلم ممالک کی سیاحت بھی کی۔
انہوں نے خاکسار تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ 1927ء میں برصغیر کے مسلمانوں کی بہتری کے لئے “مجلس اتحاد المسلمین” کی بنیاد رکھی۔ 1930ء میں وہ جاگیرداروں کے اتحاد کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ برطانوی اقتدار کے مخالف تھے لہٰذا انہیں نظام دکن کی جانب سے ترقی اور سزا کا پروانہ ہمہ وقت جاری ہوا جس میں سے نواب بہادر یار جنگ نے سزا کا انتخاب کیا لیکن اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ نتیجتاً انہیں اپنی جاگیر اور خطاب سے ہاتھ دھونا پڑے، لیکن اپنے اس اقدام سے انہیں عوام میں بے حد مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔
1940ء میں مسلم لیگ کے تاریخی جلسۂ لاہور میں شرکت کی اور ایسی زوردار تقریر کی جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
1944ء میں خاکسار تحریک سے علیحدگی اختیار کی۔
نواب بہادر یار جنگ علامہ اقبال کے معتقدین میں سے تھے، اقبال کے اشعار برمحل پڑھا کرتے، اور درسِ قرآن کے علاوہ درسِ اقبال بھی دیا کرتے تھے۔ اپنے نظریات میں وہ علامہ اقبال اور مولانا رومی سے متاثر ہیں۔ انہوں نے خاکسار تحریک، پاکستان تحریک، آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا سٹیٹس لیگ کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کی دامے، ورمے، سخنے مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور اسلام کا پیغام عام کیا۔
ان کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ اکثر ان کی اظہار کردہ رائے درست ثابت ہوئی، مثال کے طور پر فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری، سقوط حیدرآباد۔ علامہ مشرقی کے بارے میں کہا کہ خاکسار تحریک کے بنیادی اصولوں سے اتفاق کے باوجود انہیں علامہ کی قیادت پر قطعاً بھروسہ نہیں رہا۔ قائد اعظم کے سامنے ایک بار یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان کا حصول اتنا دشوار نہیں جتنا اسے “پاکستان” بنانا مشکل ہوگا!
وہ ایک صاف گو اور سادہ زندگی بسر کرنے والے انسان تھے جن کی زندگی کا مقصد اسلام کا نفاذ اور مسلمانوں کی خدمت تھا، اور اسی منزل کے حصول کے لئے وہ تاعمر جدوجہد کرتے رہے۔ بہادر یار جنگ نے جامعہ عثمانیہ کے ایک استاد کو خط میں لکھا ” اب سنئیے میری منزل کیا ہے! میری منزل مسلمانوں کو منفرداً اور جماعت اسلامیہ کو مجتمعاً منہاجِ نبوت پر دیکھنا ہے۔ میرا عمل، میری مجلس کی قراردادیں اور میری تقاریر اس اجمال کی تفصیل ہیں۔ گو ہمت عالی کے نزدیک یہ منزل بھی سنگ میل ہے اور حقیقی منزل تاجِ خلافت الٰہیہ کا زیب سر کرنا اور فرشتوں کو اپنے سامنے سجدہ ریز دیکھنا ہو سکتا ہے۔”
1944ء میں، محض 39 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی یہ مختصر سی زندگی بھی لوگوں کے لئے عمل پیہم، ثابت قدمی اور بے لوث خدمت کے بہت سے اسباق سمیٹے ہوئے ہے، جس سے سیکھنے والے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، لیکن ان کی وفات کے بعد اگلی آنے والی نسل نے انہیں جلد فراموش کر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی خدمات اور کامیابیوں سے نوجوان نسل کو روشناس کرایا جائے تاکہ آنے والے راہی ان کے نقش پا سے منزل کا پتہ حاصل کر سکیں۔ ان کی وفات پر قائداعظم نے انہیں ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا:
“آپ کی وفات سے اسلام اور مسلمان اپنے ایک کٹر اور بےلوث کارکن سے محروم ہو گئے۔ ان کی رحلت کے باعث مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کا عظیم ترین علمبردار اس دنیا سے اُٹھ گیا۔”
Pakistani govt should learn lesson from him.