“پشاور: آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ، 132 بچوں سمیت 141 شہید، 124 زخمی۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کر لی۔”
“پشاور میں قیامت کے مناظر، والدین اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔”
“قوم کے دل پر حملہ کیا گیا، دہشت گرد پاکستان ہی نہیں، انسانیت کے بھی دشمن ہیں: جنرل راحیل شریف”
“عالمی رہنماؤں کا اظہارِ افسوس، تُرکی میں ایک روزہ سوگ کا اعلان، پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں: اوبامہ”
یہ ان دل دوز خبروں میں سے چند ایک ہیں جو دو سال پہلے 16 دسمبر کو سننے کو ملیں۔
آج سے دو برس قبل تک، 16 دسمبر وہ دن تھا، جب ہم سقوطِ ڈھاکہ کو یاد کیا کرتے تھے، وہ دن کہ جب ہمارا مشرقی”بازو” ہم سے جُدا ہو گیا تھا، لیکن اس سانحے کے 43 سال بعد، ٹھیک اُسی روز ہمارے دشمن نے ہمارے”دِل” پر وَار کیا۔ وہ دشمن جس سے ایک طویل عرصے سے ہم نبردآزما ہیں، جو “نفاذِ شریعت” کے نام پر کبھی آرمی کی تنصیبات پر حملہ آور ہوتا ہے تو کبھی بازاروں میں خودکش حملے کر کے بے گناہ خواتین اور بچوں کا خون بہاتا ہے۔ جس کے ہاتھ پچپن ہزار معصوم افراد کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
اس بار اس کا نشانہ آرمی پبلک اسکول تھا، جس پر حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جاری کئے گئے ویڈیو پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ روز قبل انہوں نے ایک “آرمی” کے اسکول پر حملہ کیا ہے جو کہ اسکول نہیں، حقیقت میں آرمی کی “بیرک” ہے۔
اس ہولناک اور انسانیت سوز حملے کی ہر سطح پر مذمت کی گئی، حتٰی کہ القاعدہ اور افغان طالبان نے بھی اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے نہتے طالب علموں اور خواتین کو نشانہ بنانے کو قابل افسوس قرار دیا۔
تاریخ ایسی بربریت کی مثال دینے سے قاصر تھی جہاں طلباء کے اپنے ہی خون سے ان کی مادرِ علمی کے در و دیوار رنگ دئیے گئے ہوں۔ اس سانحے نے پوری قوم کو جہاں اشکبار کیا تھا وہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد بھی کر دیا تھا۔ جہاں شہید اساتذہ اور بچوں کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں، وہیں سحر افشاں، حفصہ خوش اور مسز طاہرہ قاضی جیسے اساتذہ نے اپنے طلباء کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کر کے جرأت و بہادری کی وہ شمع فروزاں کی جو کبھی بُجھ نہ سکے گی۔
مسز طاہرہ قاضی یکم جولائی 1951ء کو مردان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم مردان سے ہی حاصل کی۔ یونیورسٹی آف پشاور سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور 1970 کی دہائی میں تعلیم کے شعبے سے بطور استاد منسلک ہو گئیں۔ 1980 کی دہائی میں ان کی شادی ہو گئی، ان کے شوہر آرمی آفیسر تھے۔ ان کے تین بچے ہیں۔
انہوں نے 1995ء میں آرمی پبلک سکول میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ 2006ء میں انہیں آرمی پبلک سکول کے پرنسپل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ان کے طلباء کے مطابق وہ انگریزی کی بہت اچھی اور سخت گیر استاد تھیں۔
16 دسمبر 2014ء کی صبح وہ اسی آڈیٹوریم کی پہلی قطار کی ایک نشست پر براجمان تھیں، جسے خودکش جیکٹ پہنے ہوئے سات حملہ آوروں نے سب سے پہلے نشانہ بنایا۔ جس وقت حملہ ہوا، انہوں نے فوراً موقع پر موجود استاد سے کہا کہ وہ آڈیٹوریم کا مرکزی دروازہ بند کر دیں مگر ان کے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی وہ استاد حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ ان سات حملہ آوروں میں سے چھ باقی کلاس رومز کی طرف بڑھ گئے جبکہ ایک وہیں آڈیٹوریم میں موجود رہا تاکہ زندہ رہ جانے والے بچوں کو نشانہ بنا سکے۔
عینی شاہدین کے مطابق اس روز مسز طاہرہ قاضی کو اسکول میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچانے کی تگ و دو کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ گو کہ انہیں پہلے ہی ریسکیو کر لیا گیا تھا مگر انہوں نے اپنے طالب علموں اور اساتذہ کو اس عالم میں چھوڑنا گوارا نہ کیا اور ہر تنبیہہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسکول میں واپس چلی گئیں۔
اس روز انہوں نے حملے کے دوران اپنے بیٹے سے فون پر گفتگو کی اور اس دوران بھی یہی کہا کہ وہ طلباء کی جان بچانے اور ان کے والدین کو فون کرنے میں مصروف ہیں۔
وہ آخری وقت تک اسکول میں پھنسے ہوئے طالب علموں کو نکالنے میں مصروف رہیں۔ شہادت کے وقت وہ ایڈمنسٹریشن بلاک میں موجود تھیں۔ ان کے اسکول کے ایک استاد کے مطابق مسز طاہرہ قاضی نے مسلح حملہ آوروں کا سامنا کیا اور انہیں یہ تک کہا کہ انہیں جو چاہئے وہ لے لیں مگر ان کے بچوں کو چھوڑ دیں۔ مگر جب ان سے بار بار یہی استفسار کیا جاتا رہا کہ انہوں نے اپنے طلباء کو کہاں چھپا دیا ہے تو ان کا جواب تھا “میں ان کی ماں ہوں، مجھ سے بات کرو۔” جس کے بعد انہیں فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔
آرمی ذرائع کے مطابق آپریشن چار سے پانچ بجے شام کے درمیان مکمل ہوا، جس میں تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مگر مسز طاہرہ قاضی کا جسدِ خاکی رات تک ان کے گھر والوں کو نہ مل سکا کیونکہ وہ IEDs سے بھری ہوئی جگہ پر ڈالا گیا تھا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی طرف سے کئی گھنٹے بعد بم ناکارہ بنائے گئے اور ان کی نعش رات گئے ان کے گھر والوں کے حوالے کی گئی۔ انہیں ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی بہادری اور شجاعت کے اعتراف میں انہیں ستارۂ شجاعت سے نوازا گیا اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے کانفرنس روم کو ان کے اعزاز میں “طاہرہ قاضی کانفرنس رُوم” کا نام دیا گیا۔
16 دسمبر کا دن ہماری تاریخ میں دوسری بار ایک مشکل دن بن کر آیا تھا۔ مگر اس آزمائش میں ہمارے لئے پیغام تھا کہ ہمارا دشمن ایک ہی ہے، جس سے غفلت برتنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے، اسے جب موقع ملے گا وہ ہمیں نشانہ بنائے گا، جس سے مقابلے کے لئے ہم سب کو متحد ہونا ہوگا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی ہر قربانی اور شجاعت کے ہر مظاہرے کو یاد رکھنا ہوگا۔ تب ہی ہم اس عفریت پر قابو پا سکیں گے اور ایک ایسی قوم بن کر اُبھریں گے، جن کے نقش قدم کی پیروی دنیا کرے گی!
Hats off to writer (Y)