آج مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو کو 99 دن ہو گئے ہیں. اس دوران کم از کم 120 کشمیری ہندوستانی افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں. 12 ہزار سے زائد کشمیری بچے اور نوجوان قابض فوج کی طرف سے فائر کئے جانے والے چَھرّوں کے باعث زخمی ہو چکے ہیں۔ اور اکثر اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں. یہ سب حقائق کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں بس ان حقائق کی سنگینی کا ادراک مقصود ہے.
برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک کشمیری عوام ہندوستانی حکومت اور فوج کے خلاف مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں. برہان وانی شہید کی شہادت کے بعد خوش آئند طور پر ہماری حکومت کا کشمیر پر ایک مضبوط مؤقف کھل کر دنیا کے سامنے آیا. اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کا معاملہ پاکستان کی جانب سے مسلسل اٹھایا جا رہا تھا. ہندوستان اپنے مظالم کو دنیا سے چھپانے میں ناکام ثابت ہو رہا تھا. کشمیری عوام نے اپنے حقِ خودارادیت کے لئے کسی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا اور انکی قربانیاں دنیا کے سامنے لائی جا رہی تھیں.
یہ تمام منظرنامہ ہندوستان کے مذموم مقاصد کے خلاف تھا. ہندوستان نے اُڑی میں ہونے والے مجاہدین کے حملے کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان پر وہی گھسی پٹی الزام تراشی شروع کر دی. کشمیری مجاہدین کا اُڑی کیمپ پر حملہ بلاشبہ ایک کامیاب حملہ تھا جس میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے. اس حملے کے باعث بھارتی فوج کی نااہلی بھی کھل کر سامنے آئی اور حملے کے تیرھویں دن بھارتی حکام کی جانب سےاُڑی سیکٹر کے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئیر سوما شنکر کو اُڑی واقعے کی انکوائری مکمل ہونے تک عہدے سے ہٹادیا گیا۔
بھارت کا اڑی کیمپ حملے پر واویلا اور پاکستان پر دہشتگردی کا الزام بھی اپنی نوعیت میں عجیب تھا. اڑی کیمپ ایک مقبوضہ علاقہ میں واقع ایک قابض فوج کا کیمپ ہے. جس پر وہاں کے مقامی تحریکِ آزادی کے علمبرداروں نے قابض فوج کو نشانہ بنایا. یہ حملہ خالصتاً فوج اور فوجی تنصیبات پر کیا گیا, جس میں کسی بھی سویلین کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا. البتہ بھارتی فوج کو بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا. بظاہر اڑی کیمپ حملہ بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا نتیجہ تھا. یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک خطہ کے لوگوں پر انسانیت سوز مظالم مسلسل روا رکھے جائیں اور مظلوم کی طرف سے جواب نہ آئے.
اس تمام عرصے میں پاکستانی دفترِ خارجہ فعال رہا اور ہر بھارتی حربے کو ناکام کیا گیا اور تمام تر سفارتی توجہ مقبوضہ کشمیر کے حالات پر رکھی گئی۔ 28 ستمبر کو بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائکس کا بے بنیاد دعویٰ کیا گیا۔ مقصد صاف ظاہر تھا، مقبوضہ کشمیر سے عالمی توجہ کا رخ دوسری جانب موڑنا۔ آئی ایس پی آر اور پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے اس بھارتی دعوے کو سراسر مسترد کر دیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے بھارتی عوام میں جنگی جنون برقرار رکھا تا کہ سرجیکل اسڑائکس کی حقانیت پر سوالات نہ اٹھیں۔ لیکن بھارت میں بھی شعور رکھنے والے لوگ ہیں۔ کانگریس اور دیگر بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسٹرائکس پر سوال اٹھائے جانے لگے اور اصرار کیا گیا کہ اسٹرائکس کا ثبوت فراہم کیا جائے۔
یہ صورتحال بھارتی فوج اور حکومت کے لئے خاصی مشکل تھی۔ سرجیکل اسٹرائک کا دعویٰ تو کردیا تھا لیکن ثبوت کہاں سے فراہم کرتے؟ دوسری طرف پاکستانی فوج نے لوکل اور انٹرنیشنل میڈیا کو ان تمام مقامات کا تفصیلی دورہ کرایا جہاں بھارت نے اسٹرائکس کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ پاک فوج کے اس عمل نے بھارتی دعوے کو مزید کمزور کیا اور عالمی میڈیا میں بھارت کی سُبکی ہونے لگی۔ سچ ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے! بھارت اب تک سرجیکل اسٹرائکس کا ثبوت سامنے نہیں لا سکا۔ بہرکیف، سرجکل اسٹرائک سے توجہ کو ہٹانا بھارت کے لئے لازم ہو چکا تھا۔
بھارت کو یہ موقع خود پاکستانی سیاستدانوں نے فراہم کردیا۔ 5 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزی کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں جہاں بات بھارتی جارحیت کی ہوئی وہیں کچھ سیاست دانوں کی جانب سے موضوع کوغیر ریاستی عناصر کی طرف موڑا گیا۔ یہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی خارجہ امور کے بارے میں قائمہ کمیٹی میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے ایک رکن پارلیمان کی طرف سے بھی جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید سمیت غیر ریاستی عناصرکے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ حق تو یہ تھا کہ ان اجلاس میں آزادئ کشمیر کو ممکن بنانے کے لئے پالیسی ترتیب دی جاتی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی بات ہوتی لیکن ہمارے سیاستدانوں نے وہی بات کی جس سے بھارت کو فائدہ پہنچا۔
بھارتی میڈیا نے اس خبر کو بھرپور طریقے سے اچھالا اور سرجیکل اسٹرائکس اور مقبوضہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹا کر پاکستان کی جانب مبذول کرنے کی کوششوں میں لگ گیا۔ خدا جانے ان سیاستدانوں نے کس کی ایماء پر یہ بحث کی اور کس کے فائدہ کہ لئے کی۔ کیونکہ اس طرح کے مطالبات اور بیانات سے پاکستان کو قطعا ً کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ابھی ان سیاسی بیانات نے مقبوضہ کشمیر کے حالات کو پسِ منظر میں مکمل طور پر نہیں دھکیلا تھا کہ ڈان نیوز کی جانب سے ایک ‘ایکسکلوزو‘ رپورٹ شائع کر دی گئی۔ اس رپورٹ نے بھارتی میڈیا کو پاکستان کے خلاف مزید زہر اگلنے کا موقع فراہم کیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ نے اپنے نامعلوم ذرائع سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی فوج اور حکومت میں کچھ معاملات پر خلش موجود ہے اور حکومت فوج کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ گو کہ اس رپورٹ کو پرائم منسٹر ہاؤس کی جانب سے بارہا مسترد کیا جا چکا ہے لیکن ڈان نیوز اپنے موقف پر بضد ہے۔ کشمیر کا مسئلہ، بھارتی فوج کے مظالم، کشمیری عوام کی کرفیو کے باعث مخدوش حالت، اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی مسلسل شہادتیں سب پس منظر میں جا چکا ہے۔ جو کام بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا نہیں کر سکا وہ کام ہمارے سیاستدانوں اور ایک میڈیا رپورٹ نے خوش اسلوبی سے کر دکھایا۔
یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ جہاں ہمارے پڑوسی ملک کا میڈیا اور سیاستدان اپنے قومی مقاصد کے لئے مسلسل جھوٹ کا سہارا لئے ہوئے ہیں اور ہر ایسی بات اور عمل سے گریزاں ہیں کہ جس سے ہندوستان کا کشمیر پر مؤقف کمزور ہو، وہیں ہمارے کچھ سیاست دان اور نام نہاد دانش ور پاکستان کے مفادات کا لحاظ رکھے بغیر غیر ضروری معاملات کو زیرِ بحث لانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاست دان، صحافی حضرات، اور دانش ور پڑوسی ملک سے کچھ اسوہ حاصل کریں اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دیں۔