اب ہمارے ملک کے چپے چپے سے” نو گو ایریاز” ختم کر دئیے گئے ہیں۔ قبائلی علاقہ جات جو کبھی” علاقہ غیر” کے نام سے جانے جاتے تھے اور شرپسندوں کی آماجگاہ تصور ہوتے تھے، وہاں بھی اب نہ صرف امن قائم ہو چکا ہے بلکہ زندگی اپنی پوری آب و تاب سے مسکرا رہی ہے۔ بلا شبہ یہ سب پاک فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی بے پناہ قربانیوں سےممکن ہوا۔ اوران کے پاک لہو کی بدولت بہت سی ماؤں کی گودیں اجڑنے سے بچ گئیں۔ حال ہی میں مجھے خیبر ایجنسی، درہ آدم خیل اور اورکزئی ایجنسی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک ایسا منظر مجھے دکھائی دیا جو کبھی میں نے ٹی وی سکرینز پر بھی نہیں دیکھا۔ وہاں سبز ہلالی پرچموں کی اک عجب بہار تھی۔ اتنے پرچم جو کبھی میں نے جشنِ آزادی کے موقع پر بھی نہیں دیکھے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا تھا جس پہ پاکستان کا قومی پرچم نہ دکھائی دیاہو۔ یہ پر چم بلاشبہ پاکستان کے تمام روائتی اور غیر روائتی حریفوں کے لئے اک “علامتی پیغام” کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور وہاں کے لوگوں کی پاکستان سے اور اس کی افواج سے اَن کہی محبت کی اک عجیب داستان سنا رہے ہیں۔ مگر یہ سحر انگیز منظر دیکھ کر میری آنکھیں ُپرنم ہو گئیں اور دماغ میں کئی سوال امڈنے لگے۔ جب پاک فوج ان قبائلی علاقوں سے وآپس چلی جائے گی تو کیا ہو گا؟ کیا یہ پرچم تب بھی ان گھروں پہ لہراتے رہیں گے؟ ابھی تو یہ لوگ پرامید ہیں کیونکہ ان کی بنیادی ضروریاتِ زندگی (بجلی،پانی،تعلیم، سڑکیں ، علاج ومعالجہ) اور جان ومال کا تحفظ پاک فوج کے سر پر ہے۔ اور فوج ان لوگوں کی توقعات پہ بخوبی پورا بھی اتر رہی ہے۔ مگر آخر کب تک فوج وہاں پہرہ دے گی؟ اور فوج کے وہاں سے واپس چلے جانے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا ہماری حکومت ان لوگوں کی توقعات پہ ایسے ہی پورا اتر پائے گی یا نہیں؟
ہمارے تمام ترسول ادارے اور حکومت آخر کہاں مصروف ہے کچھ معلوم نہیں۔ کوئی بھی حکومتی یا سیاسی شخصیت ایسے اہم ترین ملکی مسائل پر ٹوئیٹ کرتی اپ کو کبھی دیکھائی نہیں دے گی۔ ہمارے تمام تر وزیر اور مشیر صرف پانامہ پیپرز پر ہی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔شاید کوئی نمبرز گیم کا چکر ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ معلوم نہیں۔
بہرحال قبائلی علاقوں کے ان سادہ لوح لوگوں کو دوبارہ اندھیروں اور گمراہی کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے پاکستان کی حکومت کو اب جاگنا ہو گا۔ اور اپنا وہ آئینی کردار ادا کرنا ہو گا جو ہمیں اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سوائے فوٹو سیشنز کے کہیں پر بھی دیکھائی نہیں دیا ۔اس لئےحکمران جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اورحکومتی مشینری اپنے ذاتی اور خاندانی مسائل سے ہٹا کراس قومی اہمیت کے حامل مسئلے پر مرکوز کرے۔ تاکہ جو اہم ترین کامیابیاں پاک فوج نےان علاقوں میں لاتعداد قربانیاں دینے کے بعد حاصل کیں وہ کہیں رائیگاں نہ چلی جائیں۔ اسلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ بالخصوص اپنی وہی ماہر ٹیم بروئے کار لائےکہ جس کے قصیدے ہم سب کے محترم وزیراعظم صاحب انتخابات سے قبل نجی ٹی وی چینلز کےساتھ اپنےانٹرویوز میں پڑھتے رہے۔ مگر حکومت کے چار سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو وہ ماہر ٹیم عوام کے سامنے آسکی ہے اور نہ ہی عوام اب تک اسکی مہارت و تجربے سے مستفید ہو سکی ہے کہ جس کے بل بوتے پہ حکومتی پارٹی اپنی الیکشن کمپین چلاتی رہی۔ لہذا اب ضرورت صرف اس امر کی ہےکہ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے ہمارے سیاسی قائدین حضرات نیشنل سکیورٹی سے متعلق اپنے قومی فرائض کو بجا لانے میں نہ تو مزید سست روی سے کام لیں اور نہ ہی تاخیری حربے آزمائیں۔