لگاتار تیسری مرتبہ صوبہ گجرات کے وزیرِ اعلی بن کر تاریخ رقم کرنے والے نریندر مودی صاحب اب وزارتِ عظمی کی گدی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ گجرات کی وزارتِ اعلی تو خیر انہی کی جاگیر ہے، کیونکہ ان کو صوبے کی تعصب پرست ہندو اکثریت کو خوش رکھنے کے سبھی گُن آتے ہیں۔ آپ نہ صرف بھگوا دہشت گردی کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں بلکہ آپ کو بذاتِ خود زعفرانی رنگ میں پوری طرح رنگے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ نیز ہمارے مُلک کی کیسری ذہنیت رکھنے والی جماعتوں کے نقشِ قدم پر آپ مُسلم خون سے بھی اپنے ہاتھ پوری طرح رنگ چکے ہیں۔
جناب نریندر مودی، وزیرِ اعلی گجرات، اور بھارتی جنتا پارٹی کی انتخابی فتح کی صورت میں مستقبل کے وزیرِ اعظم ہندوستان، سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں ہونے والی حادثاتی آتش زنی کو سازش قرار دے کر گجرات کے مسلمانوں کو زندہ اور مُردہ آگ میں پھینک کر آگ اور خون کی ہولی تو کھیل ہی چکے تھے، لیکن یہ شاید قوم کی تعصب پرست اکثریت کو خوش کرنے کے لئے، یا شاید ان کے اپنے ضمیر کی تسکین کے لئے ناکافی تھا۔ تاہم ان کے اپنے کارنامے انہیں ایک اور بہانہ تو فراہم کر ہی چکے تھے۔ اب پاکستان کی دہشت کی شکار نادان قوم کو یہ باور کروایا گیا کہ جناب نریندر مودی صاحب پاکستانی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ نشانے پر کیوں؟ شاید وہ ضمیر کی چُبھن سے تنگ آ گئے ہوں گے اس لئے اشارتاً یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے کہ ان کے ہاتھ چونکہ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اس لئے اب وہ شدت پسندوں کے خاص نشانے پر ہیں۔
بس پھر کیا تھا، جناب وزیرِ اعلی صاحب کی جان کے فرضی لالے پڑ گئے، اور ہر چند دنوں کے بعد پاکستان سے کوئی فرضی دہشت گرد آپ کو قتل کرنے کے مقصد سے ہندوستان آنے لگا، گویا گجرات کے فسادات تنہا مودی صاحب کا کارنامہ تھے اور ایک ان کی موت سے ہندوستان میں ہندو تعصب پرستی، تنگ نظری اور ظلم وجبر کا خاتمہ ہو جائے گا، جس کی خاطر پاکستانی بھائی اپنے تمام تر اثاثے ایک ان کے قتل کی خاطر خرچ کر ڈالیں گے۔ خیر تو مودی صاحب پر قتل کے حملوں کی بہتات ہو گئی، اور اس مقصد سے آنے والے تمام دہشت گرد ان کی رہائش گاہ تک پہونچنے سے پہلے ہی مارے جانے لگے۔ قتل کی اس فرضی سازش اور اس کے نتیجے میں ہونے والی فرضی تصادم کے لئے ہدف کے طور پر بھی انتخاب ملک کے باصلاحیت تعمیری دماغوں کا ہوا، سہراب الدین نامی انجینئر کو ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک تصادم میں مارا گیا جو بعد ازاں فرضی ثابت ہوا۔ معاملے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد جب تفتیش اور تحقیق شروع ہوئی تو یہ راز کھُلا کہ کسی بھی فرضی تصادم کی حقیقت کو ملک کی عوام کے سامنے لانے کی دھمکیاں دینے والے عہدیداروں کو پہلے ہی راستے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
پھر انیس سالہ عشرت جہاں کے علاوہ تین مسلمان نوجوانوں کا تصادم بھی فرضی ثابت ہو گیا۔ حکومت کی پردہ داری کی تمام تر کوششوں کے باوجود، پانچ سالوں سے ڈالے گئے پردے ایک ایک کر کے گرتے گئے اور آنکھوں پر بندھی نفرت کی پٹی کے نتیجے میں کی گئی غلطیاں منظرِ عام پر آ گئیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بآسانی ثابت ہو گیا کہ مقتولین کو بٹھا کر قریب سے گولی چلائی گئی تھی، پولیس موقعِ واردات پر گولیاں فراہم کرنا بھی بھول گئی، بائیں پہئے پر چلائی گئی گولیوں کے نتیجے میں گاڑی دائیں جانب لڑھک گئی، جن ہتھیاروں سے دہشت گردوں کو قتل کیا گیا تھا وہی ان کے ہاتھوں میں ڈال دیے گئے اور ہلاکتوں کا وقت بھی کئی گھنٹے بعد کا دیا گیا، حالانکہ یہی اہلکار مفروضی دہشت گردوں کے گلے میں ہلاکت کے بعد شناختی کارڈ پہنانا اور ان کے سرہانے رقم کا بریف کیس رکھنا نہیں بھولے تھے۔ اپنی قانون سے بالا تری کا حد درجہ یقین ان اہلکاروں کو لے ڈوبا، اور ان کی بچکانہ غلطیاں برسوں بعد حقیقت کا انکشاف کروا گئیں۔ نیز ان حقائق کے انکشاف کے بعد وزیرِ اعلی نریندر مودی یا ان کی جماعت کے دیگر متعصب عہدیداروں کے قتل کے لئے بھیجے گئے پاکستان کے مفروضی دہشت گردوں کے غائب ہو جانے سے شک وشبہے کی رہی سہی گنجائش بھی بالکل ختم ہو گئی۔
نریندر مودی صاحب بڑی معصومیت سے اس واقعے سے مکمل طور پر لا علمی کا اظہار کرتے ہیں، جبکہ عشرت جہاں کی والدہ ان کو اپنی بیٹی کے مظلومانہ قتل کے لئے ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، اور ان کے وزارتِ عظمی کی گدی پر بیٹھ جانے کی صورت میں بھی انصاف کا مطالبہ کرتی ہیں۔ عشرت جہاں کے فرضی تصادم کے دن انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائرکٹر نے وزیرِ اعلی مودی سے تقریباً ایک گھنٹے تک فون پر بات کی تھی، جبکہ محض معلومات اور احکامات کے تبادلے کے لئے صرف چند منٹ کی گفتگو درکار تھی۔ ایماندارانہ تحقیقات کی صورت میں یہ فون کال بھی وزیرِ اعلی کے لئے گلے کا پھندہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جبکہ ان کی ماتحتی میں قتل کی یہ وارداتیں انجام دینے والے پولیس اہلکار جو اس سلسلے میں پیش کی گئی غیر جانبدارانہ تفتیشوں کے نتیجے میں نامزد ہو چکے ہیں، خود پھنسنے کی صورت میں بڑے ناموں کو بے نقاب کرنے کی دھمکی پہلے ہی دے چکے ہیں۔
بالآخر گجرات کی اعلی عدالت نے مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے لئے 4 جولائی تک کی مہلت دی ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے کا جرم کرنے والے مظلوموں کے لواحقین کے انصاف کے مطالبوں اور حکومت کی آہنی ضرب کے درمیان یہ رسہ کشی اب شاید اپنے انجام کو پہنچا ہی چاہتی ہے۔
کیا ہندوستان جیسے بڑے مُلک کی قیادت کے لئے بھی زعفرانی رنگ میں رنگ جانے یا اقلیتوں کے خون سے ہاتھوں کو رنگنے کی خصوصیات ہی کافی ہیں؟ کیا آزاد ممالک کی باشعور عوام کے قائدین کے ہاتھ اپنی ہی عوام کے خون سے رنگے ہوتے ہیں؟ یا اپنے ملک کی عوام کی خدمت میں گرد آلود ہوتے ہیں؟