“اور وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس بیان کرتے رہتے ہیں، اللّٰہ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔” (البقرہ۔آیت نمبر 30)
انسان جسے زمین پر خدا کا نائب بنا کر بھیجا گیا، ایک طرف تو فرشتوں کے کہے کے مصداق کشت و خون کرتا پھرا تو دوسری طرف خدا کے عطا کردہ علم کی بدولت اس مقام تک جا پہنچا کہ شاعر کو کہنا پڑا
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
[pullquote]ڈاکٹرامیہ نے 150 کے قریب ریسرچ آرٹیکل اور کتابیں شائع کیں، ان کی خدمات اس لحاظ سے قابلِ قدر ہیں کہ ان کی تحقیق نے آگے چل کر بہت سے دوسرے طبی طریقۂ علاج کے لئے بنیاد فراہم کی۔[/pullquote]
قرآنِ حکیم میں اللّٰہ تعالی نے انسان کو بار بار مشاہدے اور غور و فکر کی دعوت دی ہے، یہی مشاہدہ اور غوروخوص موجودہ سائنسی ترقی کی اساس ہے۔ جدید طب میں تحقیق کا سہرا مغرب کے سر ہے جس میں کوئی مبالغہ نہیں مگر جب ان مسیحاؤں پر نظر ڈالی جائے تو ایک پاکستانی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی خدمات نیوروسرجری کے شعبے میں قابلِ قدر اور ناقابل فراموش ہیں۔
ڈاکٹر ایوب امیہ 14 اپریل 1930ء کو پنجاب کی تحصیل میاں چنوں میں پیدا ہوئے۔ 1953ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی تو اسی سال اپنے آپ کو نیشنل سوئمنگ چیمپئن کے طور پر بھی منوایا۔ 1956ء میں رہوڈ سکالر کے طور پر آکسفورڈ یونیورسٹی سے فزیالوجی، سائیکالوجی اور بائیو کیمسٹری میں گریجویٹ کیا۔ 1961 میں نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ میں شمولیت اختیار کی اور ترقی کرتے ہوئے چیف نیوروسرجن بنے۔ وہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ڈاکٹر ایوب امیہ نے 150 کے قریب ریسرچ آرٹیکل اور کتابیں شائع کیں، ان کی خدمات اس لحاظ سے قابلِ قدر ہیں کہ ان کی تحقیق نے آگے چل کر بہت سے دوسرے طبی طریقۂ علاج کے لئے بنیاد فراہم کی۔
ان کی سب سے اہم ایجاد امیہ ریزروائر کو گردانا جاتا ہے، چونکہ ان کی تحقیق زیادہ تر کینسر کے علاج، انسانی نفسیات اور ٹرامیٹک برین انجری پر مرکوز ہے، 1963ء میں ایجاد ہونے والا امیہ ریزروائر اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے قبل کیموتھیراپی کو برین ٹیومر تک پہنچانے کا کوئی مؤثر طریقہ موجود نہیں تھا اور مریض کو بار بار لمبر پنکچر (وہ طریقۂ کار جس میں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے درمیان حرام مغز کے اختتام پر سوئی داخل کی جاتی ہے، جو کہ تشخیص اور علاج دونوں مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے) جیسے تکلیف دہ طریقۂ کار سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہی امیہ ریزروائر ان تمام پورٹس کی ابتدائی شکل بھی ہے جو آج بہت سے طریقۂ علاج میں استعمال ہو رہے ہیں۔
سینٹری پیٹل تھیوری آف ٹرامیٹک برین انجری بھی ڈاکٹر ایوب امیہ کی پیش کردہ ہے جس نے نہ صرف مختلف شعبہ ہائے زندگی(جیسا کہ انجینئرنگ، نیوروسرجری اور crash analysis) کو یکجا کیا تاکہ حادثے کے دوران آنے والی دماغی چوٹ کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے بلکہ مستقبل کے لئے احتیاطی تدابیر کے لئے بنیاد بھی فراہم کی، جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے گاڑیوں کو ڈیزائن کیا جاتا ہے تاکہ حادثے کے دوران ممکنہ دماغی چوٹ کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے، وہ 1980ء کی دہائی میں ڈیپارٹمنٹ آف ٹرانسپورٹیشن کے چیف میڈیکل ایڈوائزر بھی رہے۔حکومتِ پاکستان نے انہیں 1982ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔
چونکہ ان کے دو بچے type 1 diabetes mellitus کا شکار تھے، اس لئے ڈاکٹر ایوب امیہ نے اس میدان میں بھی تحقیق کی اور ایک مصنوعی عضو تیار کیا جو کہ تجرباتی جانوروں میں تو کارگر ہے، مگر اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان سب کے علاوہ نیوروسرجری کے بہت سے شعبوں میں ڈاکٹر ایوب امیہ کو رہنما کا درجہ حاصل ہے مثلاً انہوں نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ سپائنل اینجیوگرافی (تشخیصی طریقۂ کار جس میں حرام مغز کے گرد موجود خون کی نالیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے) کی ابتداء کی، اس کے علاوہ حادثے کے دوران دماغی چوٹ سے بچنے کے لئے حفاظتی آلات بھی ایجاد کیے۔
ڈاکٹر ایوب امیہ 11 جولائی 2008ء کو اسلام آباد میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
وہ نہ صرف ایک ماہر نیوروسرجن تھے بلکہ ایک تربیت یافتہ اوپیرا سنگر اور مانے ہوئے مقرر بھی تھے۔ ان کا شمار ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ذہانت، محنت اور لگن سے نہ صرف اپنے آپ کو منوایا بلکہ پاکستان کا نام پوری دنیا میں بلند کیا، مگر یہ امر افسوس کا باعث ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں بھی کیا جاتا ہے جنہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں، جن کی پیدائش اور وفات کی تاریخ پر اخبارات ضمیمے نہیں نکالتے اور ٹی وی چینل ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں ہمارا میڈیا اپنے ملک کی چھوٹی سے چھوٹی منفی چیز اجاگر کرتا ہے وہاں ڈاکٹر ایوب خان جیسے گمنام ہیروز کو بھی دنیا کے سامنے لایا جائے جو ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان قابل ہو اور ڈھونڈنے کا ذوق رکھتا ہو تو اسے نئی دنیا مل ہی جایا کرتی ہے!