پاکستان میں دھرنوں کا عجیب رواج چل پڑا ہے۔ جس گروہ یا جماعت کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے وہ دھرنے دینے چل پڑتی ہے۔میں مانتی ہوں کہ احتجاج کرنا کسی بھی پارٹی کا جمہوری حق ہے۔ لیکن ُپرامن احتجاج! کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے جان ومال اور املاک کا نقصان کرے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا بھی جرم ہے۔ حال ہی میں حکومت نے جو ختمِ نبوت کے قانون میں ترمیم کی تھی اس کے خلاف ایک مذہبی جماعت نے اسلام آباد میں ٢٢ دن تک دھرنہ دیا۔ اور زاہد حامد کے استعفی کے ساتھ یہ دھرنہ تو ختم ہو گیا لیکن اپنے ساتھ بہت سے سوالات چھوڑگیا۔ کیا ہمارا مذہب تشدد کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہمارا مذہب سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہمارا مذہب ایمبولینس کو روکنے کا حکم دیتا ہے؟ کیا ہمارا مذہب کسی کو تکلیف دینے کا باعث بن سکتا ہے؟ کیا ہمارا مذہب کسی کو گالی دینے کی تلقین کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم تو اس نبئِ برحق ﷺ کے ماننے والے ہیں جنہوں نے خود تو تکالیف برداشت کیں مگران ذات کبھی کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بنی۔ آپ تو اپنے دشمن سے بھی حسنِ اخلاق سے پیش آتے۔ اسلام تو لوگوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کا درس دیتا ہے۔ اسلام تو دین ہی سلامتی کا ہے۔
میڈیا، ریاست کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ آج کل کے جدید دور میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا معلومات کی فراہمی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ اسلام آباد دھرنے میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کے باعث ٢٦ گھنٹےمیڈیا کا مکمل بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔ صحافتی تنظیمیں آج تک اِس پراپنا احتجاج کر رہی ہیں ۔اور سارا ملبہ حکومت پر ڈال رہی ہیں۔ لیکن اُنہیں اپنی غیر ذمے دارانہ صحافت نظر نہیں آرہی۔ ایک ریس لگی ہوئی ہے، سب میڈیا چینلز ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑمیں ذمے دارانہ صحافت کے اصول بھول گئے ہیں۔ حالات دیکھے بغیر لائیو کمینٹری شروع کردیتے ہیں۔جس سے عوام کے ذہنوں پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ ریس میں آگے نکلنے کی دوڑ میں کچھ صحافی تو دہشت گردوں کے انٹرویوز کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کہ ان لوگوں کا پیغام پہنچا کر مُلک کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے ۔المیہ تو یہ ہے کہ میڈیا پر کوئی چیز تب تک توجہ حاصل نہیں کر سکتی جب تک وہ پُر تشدد نہ ہو۔ بیشک مطا لبہ کتنا ہی ٹھیک کیوں نہ ہو جب تک لوگ پُرامن احتجاج کر رہے ہیں تو اُسے کوئی نہیں دکھائے گا۔ اور جہاں کوئی فساد ہوا فورًا کیمرے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل ١٩ کے مطابق پریس کو آزادی حاصل ہے۔ لیکن آزادی کی بھی کوئی حدود ہیں۔ اور آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کچھ میڈیا چینلز ایسی صحافت شروع کر دیں جو ملک کے لئے نقصان دہ ہو اور بدنامی کا باعث بنے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا ہے۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا استعمال عموماً اپنے سیاسی مخالفین کو بُرابھلا کہنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر طرح کی افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنی ذہنی پختگی کے مطابق وہاں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی کردار کشی میں لگے رہتے ہیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا پر مکمل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک اور اسلام دشمن پیجز کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بطور قوم ہمارے لئے المیہ کا باعث ہے۔ میڈیا کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ذمے دارانہ صحافت کرنی ہو گی۔ اورپیمرا کو چاہیے کہ وہ میڈیا پر مکمل نظر رکھے اور ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرے۔