وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کے ٩۔١ کروڑ بچے مزدوری کر رہے ہیں اور دن بدن اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ١٠ سے ١٦ سال کے بچے ہوٹلوں، سروس سنٹروں،بس اڈوں، ورکشاپوں، اور گھروں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک بھر میں بچے کوڑا اٹھانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ المیہ کی بات یہ ہے کہ مختلف تعلیمی اداروں میں بھی یہ بچے کسی “چھوٹے “ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں میری ایک ایسے چھوٹے اور درحقیقت گھر کے بڑے سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔
علی سے میری ملاقات ایک تعلیمی ادارے کی کنٹین پر ہوئی۔١١ سال کا یہ با ہمت بچہ اپنے گھر کا چو لہا جلانے کے کئے صبح ٨ سے شام ٦ بجے تک کنٹین پر کام کرتا ہے۔علی کے مطابق اسے پڑھنے کا بہت شوق ہےمگر والد کے انتقال کے ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔ علی خود تو تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا مگر اس کی خواہش ہے کہ اس کے بہن بھائی تعلیم حاصل کر سکیں۔اس لئے وہ ٢،٢ نوکر یاں کر تا ہے۔ علی سے بات کر کے مجھے محسوس ہوا کہ اچھا انسان بننے کے لئے ڈگریوں کے انبار کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دردِدل کی ضرورت ہوتی ہے۔ علی جیسے بچوں کو صرف مواقع کی ضرورت ہوتی ہے جو حالات انہیں مہیا نہیں کرتے۔ پاکستان میں ٢٥ فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زند گی بسر کر رہے ہیں اور وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے وہ اپنے بچوں کو کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بچے جو اس قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، جب حالات سے مجبور ہو کر کام کرنے نکلتے ہیں تو یقیناَ اس معاشرے کے لئے ایک المیہ وجود پا رہا ہوتا ہے ۔ یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتاہے اور پھر ناسور بن کر معاشرے کا چہرہ داغ دار اور بدصورت کر دیتا ہے۔
بچے قوم کا سرمایہ ہیں اور حکومتِ پاکستان کی بےپروائی کی وجہ سے یہ ضائع ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے ١٤ سال ہو گئے ہیں لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ تقریروں اور سیمینار کی حد تک تو اِن کی فلاح و بہبود کی بات کی جاتی ہے مگر کوئی خاطر خواہ عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ حال ہی میں ایک معروف ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی جو ٹی وی پر باتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں، بچوں پر تشدد کرتی منظرِ عام پر آئی ہیں۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل ٢٥ اے کے مطابق ٥ سے ١٦ سال کی عمر کے بچوں کی تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے۔ تو ریاستِ پاکستان کو اپنا فرض بخوبی ادا کرنا چاہیے۔ حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمے کے لئے معاشرے کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا تا کہ ہم چائلڈ لیبر جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔