2007ء سے 2009ء کے درمیان جنت کی ہم پلّہ پاکستان کی حسین ترین وادئ سوات بم و بارود کی بدبو سے تعفن زدہ تھی جہاں تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی نے اپنی من پسند برانڈ کی نام نہاد شریعت نافذ کرنے کی آڑ میں نہتے اور معصوم شہریوں کا بے دریغ قتل کیا، اور بعد ازاں، پاک فوج نےبذریعہ ایک کامیاب ملٹری آپریشن ان شر پسند عناصر کا قلع قمع کیا۔ اگرچہ 2009ء کے اس آپریشن کے بعد وہاں امن لوٹ آیا تھا مگر پھر بھی سیکیورٹی حکام کو وہاں امن و امان سے متعلق متعدد خدشات درپیش رہے جس کے پیش نظر پاک فوج اور پولیس کے زیرانتظام مشترکہ چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔
مگر اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ ایک نوجوان (منظور پشتین) اپنے شر پسند ٹولے کے ہمراہ پاک فوج کو انہی چیک پوسٹوں کی آڑ میں نشانہ بناتا نظر آیا۔ اس نے پاک فوج کے خلاف گالم گلوچ اور نازیبا گفتگو کو بطور ہتھیار برؤئے کار لاتے ہوئے عالمی میڈیا میں خاطر خواہ کوریج حاصل کی۔ اس نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ پاکستان بھر کی پشتون قوم کی آواز ہو۔ جو کہ سراسر ایک غلط اور مضحکہ خیز بات ہے اور اس کی تنظیم پشتونوں کی بھلائی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان دشمن عناصر کے تیار کردہ مذموم ایجنڈے پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں۔
بہر حال ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف منظور پشتین جیسے لوگ ہیں تو دوسری طرف کیپٹن نوابزادہ جازب شہید جیسے غیور اور دلیر پشتون نوجوانوں کی بھی ہرگز کمی نہیں جنہوں نے اپنے لہوکی آبیاری سے ملک کے امن و امان کو سینچا ہے۔ 25 سالہ کیپٹن جازب شہید کا تعلق ضلع کوہاٹ کے ایک دور افتادہ گاؤں تری سے تھا۔ اس نوجوان نے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جہاں مال و متاع کی مکمل فراوانی تھی، ہر عیش و آرام انہیں میسر تھا۔ مگر اس کے باوجود کیپٹن جازب نجانے کیوں 8000 کنال کی زرعی اراضی اور قیمتی اور پر آسائیش گاڑیوں کو چھوڑ کر 128 پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ پاک فوج میں کمیشن حاصل کرتے ہیں۔ جہاں وہ قلیل مدت میں ہی اپنی فراخدلی، ملنساری، عاجزی اور ہنس مکھ مزاجی جیسی انمول خوصیات کے باعث ہر کسی کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔
ان کے ایک جونئیر آفیسر لیفٹیننٹ عدیل سے ان کی قربت کا تو یہ عالم تھا کہ وہ ہر آپریشن سے قبل ان سے کہتے، ‘عدیل تم آگے مت جاؤ، پیچھے رہو، میں تمہارا غم نہیں سہ سکوں گا۔’ نرم دل کا حامل یہ کیپٹن دشمنوں کے لئے کسی بڑے خطرے سے کم نہ تھا اور یہ محض 5 سال کی مختصر ترین سروس میں چار سے زائد ہارڈ ایریاز یعنی دشوار گزار اسٹیشنز پر تعینات رہا جن میں سیاچن، کوئٹہ، سوات اور دیر شامل ہیں۔ سوات اور دیر کے اضلاع میں انہوں نے 82 سے زائد کامیاب ملڑی آپریشنز( سرچ، ریسکیو، اور انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز) کئے اور خوارج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اگر یہ کہا جائے کیپٹن جازب خوارج کے شکاری تھے اور انہوں نے بڑے بڑے سورماؤں کا شکار کیا تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ شاید اسی امر کے پیش نظر وہ ٹی ٹی پی کے ہدف پر تھے انہیں متعدد بار ان شرپسندوں کی جانب سے دھمکی آمیز کالز بھی موصول ہوئیں. ایک بار تو وہ اپنی والدہ کے ہمراہ سینٹورس مال میں خریداری میں مشغول تھے جب انہیں ایسی ہی ایک کال آئی۔ مگر آہنی ارادوں سے مزین، شجاعت اور بہادری سے لیس یہ پشتون نوجوان ان کی گیدڑ بھبکیوں سے کہاں ڈرنے والا تھا؟ اس کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ اس نے کبھی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی بلکہ اس کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ وہ کہتا تھا، ‘جو گولی میری تقدیر میں لکھی ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور گولیاں چاہے جتنی بھی آجائیں ہمارے سینے کبھی تنگ نہیں پڑیں گے’
ایسے دلیر بیٹے کو جنم دینے والی ماں کس قدر بہادر ہو گی؟ یہ آپ کے اور میرے وہم و گمان کی رسائی سے کہیں دور کی بات ہے۔ جازب نے اپنی والدہ کو تلقین کی، ‘ماں کبھی رونا مت، آپ ایک شیر دل بیٹے کی ماں ہو، یہ لوگ تو بزدل ہیں، سامنے سے کبھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتے اگر کبھی انہوں نے وار کیا تو پشت سے ہی کریں گے’۔ بعد ازاں، کیپٹن جازب کی بات سچ نکلی اور 4 فروری 2018ء کو شام چار بجے کے قریب ضلع سوات کی تحصیل کبل کے علاقے شریف آباد کے آرمی اسپورٹس گراونڈ میں تین کے قریب شرپسندوں نے دھاوا بولا جن میں سے دو کو کیپٹن جازب نے فوراً جہنم کی راہ دکھا دی جبکہ تیسرا خودکش بمبار تھا جس پر کیپٹن جازب لپکے تاکہ باقی لوگوں کی جانوں کو بچا سکیں مگر اسی اثناء میں اس مردود نے اپنی خودکش جیکٹ کو پھاڑ دیا اور یوں زور دار دھماکے کے نتیجے میں کیپٹن جازب سمیت 11 سیکورٹی اہلکار جام شہادت نوش کر گئے۔ پاک فوج کے اس شہید کیپٹن نے دو چھوٹے بھائی اور اپنے والدین کو بطور سوگوار چھوڑا ہے۔
کیپٹن جازب کا خاندان آج اپنے بہادر سپوت کی اس جوانمردی کے مظاہرے پر نازاں ہے انہیں فخر ہے کہ ان کے بیٹے نے پشتون قوم کی لاج رکھی۔ کیپٹن جازب کے منجھلے بھائی نوابزادہ اطاعت اور خالہ زاد بھائی محمد شاہزادہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاک فوج جوائن کرنا چاہتے ہیں. ان کے بھائی تو کوہاٹ کیڈٹ کالج میں آج اسی ہاؤس میں زیر تربیت ہیں جہاں کبھی کیپٹن جازب ہوا کرتے تھے۔ شہید کی والدہ بھی اب بڑے ناز سے ہر کسی کو اپنے بیٹے کی بہادری کے قصے سناتی ہیں مگر وہ اب بھی لبوں پر رب ذوالجلال کے تشکر کے کلمات لئے ، نمی بھری آنکھوں سے منتظر ہیں اپنے جگر گوشے کی اس فون کال کی جو وہ ہر رات سونے سے قبل اپنے والدہ کو بلا تاخیر کیا کرتا تھا۔ علاوہ ازیں، یہ دکھی ماں اپنے بیٹے کا موبائل فون بھی پانے کی متمنی ہیں جو شاید خودکش دھماکے میں ضائع ہو چکا ہے یا پھر عین ممکن ہے کہ تحقیقات کے ضمن میں سیکورٹی اداروں کے پاس موجود ہو جس میں ان کے لخت جگر کی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ان گنت تصاویر قیمتی یادوں کے بے پایاں اثاثے کے طور پر موجود ہیں جسے وہ ہرگز کھونا نہیں چاہتی۔
المختصر! کیپٹن جازب نے کم عمری میں اپنی زندگی کی تمام بہاریں اور اپنی شادی سے متعلق اپنی والدہ کے سارے خواب آپ سب کے روشن و تابناک کل کے لئے پل بھر میں قربان کر دیئے۔ واضح رہے کہ اس نوجوان کے پاس فوج کے علاوہ بھی متعدد آپشنز موجود تھیں. اس کا لمز یونیورسٹی میں فل اسکالرشپ پر داخلہ ہو چکاتھا. علاوہ ازیں، گر وہ چاہتے تو وہ اپنا کوئی بھی کاروبار شروع کر سکتے تھے جس کے مکمل وسائل ان کے اہل خانہ کے پاس موجود تھے مگر اس کے باوجود وہ پُرآسائش اور محفوظ زندگی کو ٹھوکر مار کر ایک کٹھن ترین اور خطرات سے لیس عسکری زندگی کا انتخاب کرتے ہیں، آخر کیوں؟؟ انہیں فوجی نوکری کی ضروت نہیں تھی اس کے باوجود اس شیر دل آفیسر کی ماں اسے موت کے منہ میں جانے سے روکتی نہیں، آخر کیوں؟ سوچیئے گا ضرور!
کیونکہ یہ بات ہے ایک پشتون ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے نڈر بیٹے کی قربانی کی، جو بلاشبہ دنیا کی ہر قربانی سے افضل ہے۔ سلام ہے ایسی ماؤں کو جو جازب جیسے بے لوث جذبوں کے حامل بیٹوں کو جنم دیتی ہیں جن کے آنسو ان کے بیٹوں کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بنتے ہیں۔ اور یہی طاقت جب پاک دھرتی کی محض ایک پکار پر ملک دشمن عناصر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنتی ہے تو یقین جانئیے آسمان سے فرشتے بھی خود اتر کر ایسے دلیر بیٹوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
I am speechless.