میں ایک پاکستانی ہوں۔
مجھے نوجوان نسل کا نمائندہ سمجھ لیجیئے، وہی نوجوان نسل جو پاکستان کی کل آبادی کا شاید 65 فیصد ہیں،
مگر وہ نوجوان جو شاید کچھ مایوس ہیں۔
اس ملک سے، اس کے مستقبل سے، جنہیں اب چھ دہائیاں پرانی قربانیوں کی روداد سنانے والے گزر چکے،اور جنہیں شاید اب یہ سب سننے میں دلچسپی بھی نہیں،
“آخر دونوں ملکوں میں فرق ہی کتنا ہے؟
وہی بیماری، بھوک اور غربت واہگہ کے اُس پار ہے اور اس پار بھی، وہی کرپشن اس طرف ہے اور اِس طرف بھی، بلکہ یہاں تو طالبان کی صورت میں دہشتگردی کا عفریت بھی موجود ہے، جو اُس پار نہیں ہے۔”
مگر تبدیلی کی امید تو رکھی جا سکتی ہے
اپنے علامہ کہہ گئے ہیں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
آواز قریب سے ہی آئی تھی۔
تبدیلی؟ کس تبدیلی کی بات کر رہے ہیں حضرت؟ ایک خاندان کی جگہ دوسرا حکومت کرنے لگے گا، یہ تبدیلی تو عرصہ ہوا، آ رہی ہے اور متواتر آئے چلی جا رہی ہے۔
بجا، مگر تبدیلی سے میری مراد رویے میں تبدیلی تھی۔
رویہ تبدیل ہو تو کیونکر؟ امید رکھی جائے تو کس سے؟ اگر آپ کا اشارہ دھرنوں کی طرف ہے تو معاف فرمائیں، مجھے ان سے کوئی خاص توقع وابستہ نہیں، قادری صاحب بھی انقلاب کا مژدہ لے کر آئے تھے اور واپس جانے والوں کے لئے سزا بھی تجویز فرمائی تھی مگر آخر خود ہی واپس ہو لئے، اب دھرنے کے نتیجے کا انتظار ہے بس!
آخر آپ کو سیاسی شخصیات سے ہی تبدیلی اور امید کا سبق کیوں درکار ہے؟ اب کے اس آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔
تو آپ ہی وہ چشمہ بتا دیجیئے جہاں پانی کی جگہ امید بہتی ہے، ہم بھی سیراب ہو لیں گے
آخر آپ کو اس ملک کے لوگوں سے کوئی امید کیوں وابستہ نہیں ہے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک قوم بن جائیں تو اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو بھی شکست ِفاش دے سکتے ہیں، جو زلزلے کے بعد شہر پھر سے بسا دیتے ہیں، جن کی سخاوت کے چرچے ساری دنیا میں ہیں۔۔۔۔
اگر یہ ایک “قوم” بن جائیں تو” میں نے بات کاٹ کر طنز کیا تھا۔
دوسری جانب خاموشی چھا گئی تھی۔ میں نے دِل میں کمینی سی خوشی محسوس کی تھی، آخر آج تو اس آواز کو ہار مانتے ہی بنی۔
اور ابھی اس گفتگو کے انجام پر ہم دونوں ہی سوچ رہے تھے کے ایک اور مایوسی کی خبر نے ذہن و دل کو جکڑ لیا.
واہگہ بارڈر: پرچم اتارنے کی تقریب دیکھ کر نکلنے والوں پر خودکش حملہ، رینجر اہلکاروں سمیت 59 افراد جاں بحق، 125 زخمی
اخبار کی ایسی سرخیاں کوئی نئی بات نہیں جو اکثر خودکش حملوں کی خبریں سناتی ہیں مگر کیا کیجئے کہ یہ خبریں ہمیشہ اداس کر دیتی ہیں۔
ایک پرائیویٹ چینل کی خبر کے مطابق عام شہری تین روز تک پرچم اتارنے کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گے، مجھے وہ دن یاد آیا جب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں خودکش حملوں کے بعد ملک کے سب تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے تھے، تب ہر چیز ویران اور اداس ُلگا کرتی تھی، کیا وہی ویرانی واہگہ کا احاطہ بھی کر لے گی؟ اور پھر وہاں کی رونق کتنے عرصے بعد بحال ہو گی؟
اب کی بار اس آواز نے بھی لمبی چپ سادھ لی, مجھے جیسے کسی ‘امید’ کے چند الفاظ کی ضرورت تھی, جیسے, اس آواز سے لڑ کر شاید دل کی بھڑاس نکل جاتی ہو, مگر اب تو دوسری سمت بھی خاموشی نے احاطہ کیے رکھا۔۔
رات کو نیوز چینل پر چلنے والے ٹکر میرے دل کی دھڑکن میں اضافہ کر رہے تھے
دھماکہ پاکستان میں،ہوش بھارتیوں کے اُڑ گئے
پرچم اتارنے کی تقریب میں شہریوں کی بھرپور شرکت
حوصلے بلند ہیں، دہشتگردی کا خوف وطن سے محبت کم نہیں کر سکتا، شہریوں کے تاثرات
“جیوے جیوے پاکستان” اور ہر دفعہ بلند ہوتا ہوا نعرۂ تکبیر میری آنکھیں بگھو رہا تھا، لیفٹیننٹ جنرل صاحب کے ساتھ میں نے بھی زندہ دلانِ لاہور اور پاکستان کے جذبے کو سلام کیا تھا۔
مگر سرحد کے اُس پار کی بے رونقی مجھے تحیر میں مبتلا کر رہی تھی، واقعی! دھماکہ تو یہاں ہوا ہے، وہاں ہُو کا عالم، چہ معنی؟
“بس یہی فرق ہے دونوں اطراف کی اقوام میں،جسے جاننے کی آپ کو جستجو تھی” مسرور سی آواز مجھے ایک بار پھر شرمندہ کر گئی۔
ویسے اب امید اور تبدیلی کا سبق آپ کو کہاں سے درکار ہے؟
سرگوشی میں سوال کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔