ٹی وی پر خبر آ رہی تھی کہ اسلام آ باد پولیس نے دھرنے کے شرکاء پر تشدد شروع کر دیا ہے. اور بدلے میں دھرنے والوں کی جوابی کارروائی، پولیس کے 75 اہلکار اور دھرنے میں شریک 50 لوگ زخمی
کیا کہا؟ کونسا دھرنا؟ کس ملک کی بات ہے؟
جی آپ کے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں سنی تحریک لبیک یا رسول اللہ ص والوں نے دس بارہ روز سے “پر امن دھرنا” دے رکھا ہے. جس کےنتیجے میں معمولات زندگی منسوخ ہو کر رہ گئے ہیں .
دھرنا؟ لیکن کیوں؟
کیونکہ آپ کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مند وزیر قانون نے “نا معلوم” عناصرکی شہ پر جرأتآئینِتان میں ختم نبوت کی شق میں تبدیلی کا ارتکاب کیا ہے. جس کے نتیجے میں ہمارے نا اہل وزیر اعظم کے “قادیانی بھائیوں” کے لیے قومی اسمبلی کے راستے ہموار ہوتے نظر آئے تو اس ملک کی “امت مسلمہ” کی غیرت ایمانی جوش میں آ گئی اور اس گستاخی کے کم و بیش دو مہینے بعد ایک “غیرت مند” قافلہ لاہور سے چلا اور اسلام آباد پہنچا اور اس روز ہماری حکومت کو کانوں کان خبر نہ ہوئی لیکن جب قافلہ نے فیض آباد میں ڈیرے ڈال دئیے اور سالارِ قافلہ مولوی خادم حسین رضوی نے کابینہ کے ممبران کو ناقابل اشاعت و بیان القابات سے نوازا تو حکومت کی موٹی عقل میں یہ بات آئی کہ پولیس آخر کس دن کام آئے گی؟
اور بہت دن ہوۓ ملک میں آتش و خون کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا تو پولیس کو حکم جاری کیا گیا کہ فیض آباد کا علاقہ “کلئیر” کیا جائے گویا کہ
لگا کے آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کے سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے
حضور! شوق سلامت رہے شہر اور بہت
تو جناب آپریشن شروع ہوا، پولیس کی شیلنگ اور ربر کی گولیوں کی برسات کے جواب میں “پرامن شرکاء” نے ڈنڈے نکال لیے۔ اور نہ جانے کون سے رسول کی سنت کا اتباع کرتے ہوئے بھرپور گالم گلوچ ، مار کٹائی اور بد امنی کا مظاہرہ کیا۔
کیوں کہ اگر وہ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے ہمارے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ہوتے اور نعرہ باز عاشقان محمد رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو یہ بات تو مجھ جیسی نیم مسلمان اور محدود علم کی حامل انسان
کو بھی معلوم ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو پتھر مارنے والوں کو بھی دعائیں دیتے تھے، رضاعی بہن کی آمد پر کھڑے ہو جاتے اور بیٹی کی آمد پر چادر مبارک بچھا دیا کرتے تھے اور ان کے محبوب چچا کے بدن مبارک کی بے حرمتی کرنے والی ہِندہ تک کو معاف فرما دینے والے تھے۔
یہ کس دین کے پیروکار اور کس مذہب کے علمبردار ہیں جو بیمار اور نادار مریضوں سے بھری ایمبولینس کو بھی رستہ دینے کو تیار نہیں!
اور یہ حکومت ؟ یہ اس ملک کی حکومت ہے جسے لا اللہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا؟
تا کہ ہم اپنی عبادات میں آزاد ہو سکیں! تا کہ ہمیں سجدہ کرنے کی آزادی مل جائے! یہ وہی دھرتی ہے جس کے نام پر لاکھوں کٹ گئے؟ ہزاروں عصمتیں پامال ہوئیں؟
اور قانون کی اس شق میں تبدیلی جس کا اقرار کیے بغیر ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا؟ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر وار؟ جن کے متعلق درویش صفت عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اقبال اللہ تعالی سے کلام کرتے ہوئے فرما تے ہیں
۔ تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہاۓ من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہ مصطفے پنہاں بگیر
(اے اللہ تو دو جہانوں کا سخی ہے اور میں تہی دامن ہوں روز محشر تو میرے عذر قبول فرما لینا اور اگر میرا حساب لینا انتہائی ضروری ہوا تو مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے چھپ کر لینا میں گناہ گار ان کا سامنا نہ کر سکوں گا)
اور ہم ! ہماری ہمت اس قدر بلند ہو گئی ہے؟ یا ہم پستی کی دلدل میں اس قدر پھنس چکے ہیں؟ یا ہمارے دلوں پر بھی خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوبِھِم والا معاملہ ہو چکا ہے؟
ہم اس دن کے خوف سے ماورا ہو چکے ہیں؟ جس دن سب روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا۔
اس حساس معاملے کو اس قدر نظر انداز کیوں کیا گیا؟ کیا ہم کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کا حال بھول گئے یا جامعہ حفصہ کو گزرے زیادہ عرصہ بیت گیا ؟ نقصان بالآخر کس کا ہو گا ؟
میرے دوستو ! آپ بھی کہتے ہوں گے کہ گھر بیٹھے تنقید کرنا بہت آسان ہے۔ دو چار سطریں لکھ کر فرض پورا نہیں ہو جاتا۔
بے شک میں آپ سے مکمل اتفاق کرتی ہوں لیکن تبدیلی کا بیج ہمیشہ سوچ سے جنم لیتا ہے، قلم کے ذریعے پروان چڑھتا ہے اور میدان عمل میں قدم رکھنے سے پھل دیتا ہے۔
ہم یعنی نوجوان نسل اس دھرتی کا 64 فیصد حصہ اگر تہیہ کر لیں کہ جاہل ملاؤں کو منبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا کر پڑھے لکھے دین اسلام کی سمجھ بوُجھ رکھنے والوں کو سامنے لے کر آنا ہے تو کیا یہ نا ممکن ہے ؟
کیا ہم اپنی ذات، اپنے گھر سے تبدیلی کا آغاز کر کے اس سوچ کو بدل نہیں سکتے کہ “اب اتنا پڑھ لکھ کر تم مولوی بنو گے؟”
ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین وغیرہ کی ڈگری لینے والے اگر ساتھ ساتھ دین کی تعلیم حاصل کر کے ان “رانگ نمبروں” کا بائکاٹ کر دیں تو تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔
اگر یہی 64 فیصد آبادی اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے کرپٹ حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچنے کے تمام راستے بند کر دیں تو کیا یہ ملک دنیا کے نقشے پر روشن نہ ہو جائے گا ؟
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گی کہ
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے!!