گذشتہ چند دنوں میں آنے والی چند خبریں مختلف حوالوں سے اہم تھیں، جن پہ سوشل میڈیا پر اور لبرل حلقوں کی طرف سے خاصا شوروغل دیکھنے میں آیا۔ مثال کے طور پر ترکی کے ناکام مارشل لاء کو لیجیئے جس پر بہت دن تک مِلا جُلا ردعمل دیکھ نے کو ملتا رہا، یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کی خبر کو لیجیئے، جس پہ ان سب حلقوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر #IAmQandeel کا ٹرینڈ چلایا گیا، حتٰی کہ قندیل بلوچ کو تمام پاکستانی خواتین کی نمائندہ تک قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
لیکن ایک خبر ایسی ہے جس کی ہولناکی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیمیں، بزعم خود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور آزادئ صحافت کے علمبردار کچھ صحافیوں کی طرف سے ردعمل کے طور پر مکمل سکوت طاری ہے۔
“مزید ایک کشمیری نوجوان شہید، شہداء کی کلُ تعداد 70 ہوگئی۔ مقبوضہ وادی میں ایک بار پھر کرفیو نافذ۔ علی گیلانی، میر واعظ دوبارہ گرفتار، پلوامہ، شوپیاں میں دفعہ 144 نافذ، فوج کی مزید نفری طلب۔ “پیلٹ گنز” کا استعمال کرتے رہیں گے: بھارتی جنرل”
مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا، مگر اس کرفیو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے لاتعداد کشمیری قابض افواج کے خلاف مظاہرے کی غرض سے گھروں سے نکل آئے، جس پر قابض افواج کی طرف سے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا۔ نتیجتاً 65 افراد شہید ہو گئے، 600 سے زائد زخمی ہیں جن میں پانچ سال تک کے بچے بھی شامل ہیں، جبکہ چھرّوں (pallets) کی وجہ سے زخمی قریب قریب دو سو افراد کی ایک ہفتے کے دوران سرجری کی جا چکی ہے، جن کی اکثریت ہمیشہ کے لئے بصارت سے محروم ہو چکی ہے!
لیکن
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں؟
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا ؟
کے مصداق کشمیریوں کے حق میں اور اس کھلی ننگی جارحیت کے خلاف ، پوری دنیا میں ہونے والے کسی بھی واقعے پر بِلبِلا اٹھنے والے لبرل طبقے کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
مثال کے طور پر امن کا نوبل انعام پانے والی پاکستانی خاتون، جو کہ عالمی سطح پر بچوں کے حقوق کی وکالت کرتی نظر آتی ہیں، کشمیر کے معاملے میں ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہے، حتٰی کہ اس بارہ سالہ کشمیری بچے کی شہادت پر بھی وہ کوئی مذمتی بیان دینے سے قاصر رہیں جسے قابض افواج نے اس کے چھوٹے بھائی کی موجودگی میں تشدد کر کے شہید کر دیا تھا!
یا پھر پاکستان ہی سے تعلق رکھنے والی دو بار کی آسکر ایوارڈ یافتہ خاتون، جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں ہمہ وقت سرگرم رہتی ہیں، اور جن کا ماننا ہے کہ خواتین پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے کے لئے فلم ایک بہت مؤثر میڈیم ہے جو قانون سازی میں تبدیلی کر کے خواتین کو انصاف دلانے کی اہلیت رکھتا ہے، کیا وہ چودہ سالہ انشاء ملک کے لئے، جو قابض افواج کے دئیے گئے زخموں کی بدولت دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکی ہے، “A girl in the river” کی طرز پر “A girl and a million terrorists” نامی فلم بنانے پر آمادہ ہیں؟ تاکہ انشاء اور اس جیسی بہت سی کشمیری بچیوں اور خواتین کی آواز دنیا تک پہنچائی جا سکے؟
بہت لمبے عرصے سے انسانی حقوق کے لئے سرگرم “لِٹل ہیروئن” جو کہ اتنی رحم دل ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے
Revenge tactic
قرار دے چکی ہیں، لیکن کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر اب تک خاموش ہیں۔ شاید “پرائی جنگ تے احمق پئیا لڑے” والے کلیے کا اطلاق کرتے ہوئے وہ اس “پرائے ” ظلم پر کچھ کہنے کو بھی احمقانہ گردانتی ہیں!
اظہارِ رائے کی آزادی کے تناظر میں”سب کچھ بول دینے والے” اور کشمیریوں کی حمایت کو “ڈھکوسلا” قرار دینے والے”دانشوروں” کی تو بات کیا کیجیئے، لیکن خود کو “ذات کا رپورٹر” کہنے والے بھی قابض افواج کی، نہتے افراد پر فائرنگ کے حوالے سے”مجبوریاں” گِنواتے رہے، کشمیریوں کے حق میں کہنے کیلئے ان کے ذخیرۂ الفاظ میں کچھ نہیں تھا!
مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کا ادھورا ایجنڈا ہے، کشمیریوں کی پانچویں نسل بھارت کی بربریت کے خلاف برسرِپیکار ہے، جن کی آواز کا گلا گھونٹنے کے لئے کرفیو، AFSPA, جعلی مقابلے، اخبارات اور انٹرنیٹ کی بندش، حتٰی کہ ٹارگٹ کلنگ تک کا ہتھکنڈہ قابض افواج کی جانب سے استعمال کیا جاتا ہے، چھرّوں والی بندوق جیسے “کم جان لیوا ہتھیار” کا استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کی بصارت چھینی جا رہی ہے، طرفہ تماشا یہ کہ اقوام متحدہ سے لے کر لبرل ازم اور سیکولرازم اور اظہار رائے کی آزادی کا پرچار کرنے والے طبقے تک، سب ہی کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور ان کے شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی توفیق سے محروم ہیں!
فی الحال ابن انشاء کی فلسطین پر لکھی گئی نظم یاد آ رہی ہے، جو کشمیر کے آج کے حالات سے بھی مطابقت لئے ہوئے ہے”یا اخی! یا اخی!
رو چُکا اور کاہے کو روتا ہے تُو
تیرے رب کا تو فرمان۔۔۔ “لا تقنطو!”
کس کی تاریخ ہے بے غم و ابتلا
کربلا بھی ترے دین کا مرحلہ
جس جگہ دھوپ ہے اس جگہ چھاؤں ہے
زندگی دھوپ اور چھاؤں کا ناؤں ہے
آ دکھائیں تجھے، تیری دلجوئی کو
دُور مشرق میں احرار ہنوئی کو
ان کا دشمن شکستوں سے بےحال ہے
ان کو لڑتے ہوئے بیسواں سال ہے
یہ بھی ملحوظ رکھ تو جو دل تنگ ہے
یہ بھی ان کی ہے، وہ بھی تری جنگ ہے
آج دشمن کو گر کامراں جانیے
اس کو اک عارضی امتحاں جانیے
جنگ میں گام دو گام ہٹتے بھی ہیں
آگے بڑھنے کو پیچھے پلٹتے بھی ہیںآ کہ ان قاتلوں، وحشیوں، مجرموں
غاصبوں، اور ان سب کے آقاؤں کو
وہ جو سونے کے بچھڑوں کی پوجا کریں
سات ساگر کے اس پار سے جو سدا
تار سازش کے بیٹھے ہلایا کریں
ساری دنیا میں آشوب لایا کریں
ان کے اپنے گناہوں کے سنگِ گراں
کر کے زیبِ گلو
آج عقبہ کی کھاڑی میں غرقاب کر دیں
تاکہ عمان و مکّہ بھی محفوظ ہوں
تاکہ لاہور و ڈھاکہ بھی محفوظ ہوں
تاکہ اور اہلِ دنیا بھی محفوظ ہوںاور پھر ان کے پسماندگاں کے لئے
ایک دیوارِ گریہ بنائیں کہیں
جس پہ مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں!”