گزشتہ ہفتے برازیل کے دو بڑے شہروں میں سے ایک ساؤ پاؤلو میں پُر تشدد مظاہرے اور فسادات دیکھنے میں آئے، جن میں بس کے کرایہ پر نرخ کی قیمت میں اضافے کے خلاف ہزاروں مظاہرین نے جمع ہو کر احتجاجات کئے۔ خبروں کے مطابق یہ احتجاجات لاطینی امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں غریب عوام کو فراہم کی جا رہی خدمات کے ادنی معیار کے خلاف فرقہ وارانہ رُخ اختیار کرنے لگے تھے (ذرائع)۔ حکام کی طرف سے نرخ میں فوری تخفیف کے بعد ہی ان فسادات کی روک تھام ممکن ہو سکی۔
زرداری خاندان کی جمہوری حکومت کے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستانی عوام نے ایسے بیشمار مظاہرے دیکھے ہیں؛ بجلی، گیس اور سی این جی کی بیجا لوڈ شیڈنگ کے خلاف، بنیادی ضرورتوں کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف، تو کبھی ایندھن، گیس اور بجلی کی محصولات میں اضافے کے خلاف۔ پانچ سالوں سے اس کا الزام زرداری حکومت کے سر ڈالا جا رہا تھا، اور پنجاب کے وزیرِ اعلی شہباز شریف صاحب ملک کے غریبوں کو مایوس کرنے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو توہین آمیز الفاظ کے ساتھ بدنام کرتے رہے ہیں۔ یہ الفاظ انتخابی مہم کے دوران مزید شدت اختیار کر گئے، اور عوام کو غریبوں کی حالتِ زار میں بہتری لانے، قیمتوں میں کمی کرنے، اور پی پی پی کی حد درجہ بد عنوان حکومت کی طرف سے ملک کی عوام اور دیگر معاملات میں برپا کی گئی تباہی کو کالعدم کر دینے کے بلند وبالا وعدوں کی ڈوز دی گئی۔
لوگ پُر امید تھے، انہیں نواز لیگ کے آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) اور یو ایس ایڈ (ولایت ہائے متحدہ کی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی) کے پیش کئے ہوئے بھیک کے کٹوروں کو توڑ دینے کے نعرے یاد تھے، اور انہیں وہ نواز لیگ یاد تھی جس نے چاغی میں جوہری تجربے کئے تھے۔ لیکن اسی نواز لیگ نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں عوام کے ساتھ کیا کیا؟ توانائی کے شعبے کی سبسڈی میں کمی، اور اس کے نتیجے میں بجلی کی نرخ کی قیمت میں پہلی جولائی سے 2۔50 روپے فی یونٹ کا اضافہ؛ اور روز مرہ کی خرید وفروخت کی اشیاء کی نرخ (جنرل سیلز ٹیکس) میں 16 سے 17 فیصد کا اضافہ۔
شاید اب عوام کو اندازہ ہو جائے گا کہ ایک طرف کشکول کو توڑنے کے وعدے، اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرضے لینے میں سہولت کی غرض سے بنائی گئی پالیسیاں باہم متضاد ہیں۔ یوں بھی سبسڈی میں کمی اور نرخ میں اضافہ کی شرائط آئی ایم ایف کے پیکج کے لئے ہونی چاہئیں۔ شاید یہ وقت یہ یاد کرنے کا ہے کہ آج سے پانچ برس پہلے بریطانیہ میں ‘میثاقِ جمہوریت’ پر دستخط کرنے والوں نے ملک واپس آنے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے عالمی پروگرام کی خاطر اپنی عوام کے وقار اور خود مختاری کا سودا کر لیا تھا۔
اقتدار میں آتے ہی نواز لیگ نے طعن وتشنیع اور الزامات سے پُر اپنی گزشتہ بیان بازی کو خود رحمی اور خود ترسی سے بدل لیا ہے۔ نواز شریف صاحب نے بجٹ پر غور وفکر کرتے ہوئے فرمایا کہ “وفاقی بجٹ عام شہری کومہنگائی کے بوجھ تلے مزید دبا دے گا”، گویا بجٹ مریخ سے پیش کیا گیا تھا اور آنجناب کو اچانک اس کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ احساسِ ذمہ داری کہاں ہے؟ فوری مثبت اقدام کہاں ہے؟ وہ ‘نجات’ کہاں ہے جو ان کے اس اقتدار کے ساتھ آنے والی تھی جس کی وہ انتخابی مہم کے دوران بھیک مانگتے رہے تھے؟
قیمتوں میں اضافے کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کسی بھی اضافے کی عدم موجودگی کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجات شروع ہو گئے۔ اس قسم کے احتجاجات صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ کرہء ارض کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جہاں کہیں بھی آئی ایم ایف اپنا کھیل کھیل رہی ہے، وہاں اس قسم کے مظاہرے اور فسادات دیکھنے میں آتے ہی رہتے ہیں، حالانکہ مرکزی دھارے میں شامل ذرائعِ ابلاغ ان کی خبریں کم ہی دیتے ہیں۔
احتجاجی مظاہروں کے چند دنوں کے اندر حکومت نے تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کر دیا۔ کیا یہ اقدام سنجیدگی سے بنائے گئے جامع بجٹ کی علامت ہے یا بہت سی گنجائشیں رکھنے والے ایک غیر یقینی بجٹ کی غمازی کرتا ہے؟ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا عنوان – شاید نواز انکم سپورٹ پروگرام میں – تبدیل کرنے کی کوشش بھی ایک عجیب حرکت تھی۔ تاہم یہ پی پی پی کے خیالات کے ساتھ نواز حکومت کے مکمل نظریاتی اتفاق کا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ بد عنوانی سے بھرپور اور انحصار اور غلامی کے نظریات کی بنیاد پر قائم ایک منصوبے کی تائید بھی ہے۔
نواز لیگ کو ووٹ دینے والوں اور نہ دینے والوں کو بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی اور آئندہ پانچ سالوں میں بھی ‘عدم تبدیلی’ کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ تبدیلی صرف پہلی صفوں اور پچھلی نشستوں میں بیٹھنے والے چہروں میں آئے گی جو باہم نشستیں بدل لیں گے۔ اور ہاں، شاید آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں اور حد درجہ مہنگائی، ہمارے شہروں کی سڑکوں پر پھیلے خوف وہراس اور دہشت میں روز بہ روز اضافہ، اور نواز پارٹی کے ہاتھوں میں اقتدار دینے کے ساتھ ساتھ اصل باگ ڈور غیر ملکی ہاتھوں میں محفوظ رکھنے کے صلے میں احسان مندی کے طور پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مزید خوشنودی کے حصول کی کوششوں کی صورت میں بھی تبدیلی نظر آئے۔