دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنی قیمتی جانیں گنوائیں وہیں اس جنگ کے نتیجے میں متعدد سیاہ ترین واقعات بھی ہماری یادداشتوں کا حصہ بنے جو ہرگز کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ مگران سب سیاہ ترین واقعات میں جو امتیازی مقام جولائی سنہ2007ء کے سانحے کو حاصل ہے اس کی نظیر دیگر اقوام کی تاریخ میں شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ کیونکہ تبھی عالمی میڈیا میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر متعارف کروانے کے اُس تشویشناک سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کی جھلک ہم آئے دن بین الاقوامی فورمز پر ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان پر لگنے والے ان گھناؤنے الزامات کے پسِ پردہ محرکات میں کلیدی کرداران واقعات کا ہے جو سنہ 2007ء میں پاکستان کے دارلحکومت میں وقوع پذیر ہوئے۔ جب اسلام آباد کے وسط میں واقع ایک مسجد(لال مسجد) دہشت اور خوف کی علامت بن کر سامنے آئی۔ وہ مسجد جسے امن کا گہوارہ اور خیر کا وسیلہ ہونا چاہیئے تھا اُس نے ریاستی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ذاتی شرعی عدالت قائم کرنے کا اعلان کردیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے کی صورت میں خود کُش حملوں کی دھمکی بھی دی۔
اتنا ہی نہیں بلکہ تین چینی خواتین اور دیگر افراد کو قابلِ اعتراض بپارلر چلانے کے الزام میں لال مسجد اور جامعہ حفضہ کے طلبہ و طالبات نے گرفتار کر لیا۔ علاوہ ازیں، اسلام آباد کی رہائشی ایک خاتون پر فحاشی کا اڈا چلانے کا بہتان لگا کر اسے نہ صرف اغواء کیا گیا بلکہ اس پر ڈنڈوں سے تشدد بھی کیا گیا۔ اسی اثناء میں پولیس کے4 اہلکاروں کا اسلحہ چھین کر انہیں یرغمال بھی بنایا گیا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں تھما بلکہ مولانا غازی عبدالرشید(مولانا عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی) کی جانب سے قائد اعظم یونیورسٹی کی طالبات کے چہروں پر تیزاب پھینکنے اورمولانا عبدالعزیزکی جانب سے ایک فیشن میگزین کے منتظمین کو سزائے موت کا حکم سنانے جیسے گھناؤنے اقدامات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں جس نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح کیا۔ حتی ٰکہ ان کے قہر سے معصوم بچوں کی لائبریری اور دیگر سرکاری املاک بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔
پاکستان کے لئے ایسی گھمبیر صورتحال سے نبرد آزما ہونا، یقیناً ایک کڑی آزمائش کے مترادف تھا۔ ایک طرف ریاست کی عمل داری کی بحالی کا سوال تھا تو دوسری طرف معاشرے کے ان غریب اور مسکین بچوں کی جانوں کی فکر، کہ جن کی باقاعدہ ذہن سازی(برین واشنگ) کی گئی تھی۔ اور نتیجتاً وہ اس مسجد کے انتہا پسند نظریات اور ذاتی ایجنڈے کے ہاتھوں ایسے یرغمال بنے کہ وہ اپنے ہی ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔
لال مسجد کی میڈیا کوریج کے دوران ایسے مناظر بھی کیمرے کی آنکھ نےعکس بند کئے جب متعدد نوجوان اپنے منہ ڈھانپے اور گیس ماسک پہنے ہوئےتھے۔ جو کہ حیرت انگیز بات تھی کیونکہ اس قسم کے ماسکزسے ایک آدھ گھنٹے میں عادی ہونا کسی بھی انسان کے لئے ہرگز ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے مہینوں پر محیط ایک مکمل تربیت درکار ہوتی ہے ورنہ انسان کو قے ہونے لگتی ہے۔ ان نوجوانوں کی ماہرانہ جنگی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا کہ اُن میں سے ایک نے تو اچھے خاصے فاصلے سے رینجر کے ایک اہلکار کے سر پر نشانہ لے کر اُسے شہید کر دیا۔
بہرحال پاکستان نے پُرامن طریقے سے ان معاملات سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کی اوراس ضمن میں سیاستدانوں، سماجی کارکنوں حتٰی کہ اس وقت کے امامِ کعبہ کی بھی خدمات حاصل کی گئیں۔ تاکہ کسی طرح یہ نوجوان طلبہ اور طالبات ہتھیار ڈال دیں اور پُر امن طریقے سے یہ معاملہ اختتام پذیرہوجائے۔ بہت سی طالبات نے تشدد کا راستہ ترک بھی کیا اوران کے ہی بھیس میں لال مسجد اور مدرسے کے منتظمین مولانا عبدالعزیز اور اُمِ حسان نے بھی مسجد میں اپنے دیگر طلبہ کوتنہا چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا چاہی مگر وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آگئے۔ پاکستان نے مولانا عبدالرشید کو بھی اپنے ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈالنے اور انہیں ان کے آبائی علاقے میں محفوظ ٹھکانہ دینے کی شرط پر ہر ممکن آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے اور انہوں نے مزاحمت کے راستے کو ترجیح دی۔
بالاآخر 10 جولائی سنہ 2007ء کو علی الصبح پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ(ایس ایس جی) کےاعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈوز پر مشتمل ایک دستہ تشکیل دیا گیا تا کہ ملٹری آپریشن کیا جا سکے۔ مگر اس دوران بھی حکومتِ پاکستان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ کسی طرح بنا آپریشن کے معاملات طے پا جائیں۔ عموماً اس طرز کے آپریشنز کے لئے رات کی تاریکی کا انتخاب عسکری اعتبار سے آپریشنز کی کامیابی کے لئے نہایت سودمند سمجھا جاتا ہے۔ مگر حکومتِ پاکستان نے اس وقت کوبھی صرف اس لئے ضائع کیا کیونکہ وہ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس سب کے باوجود حکومتِ پاکستان کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ اور بالآخر ریاست کے پاس بذریعہ ملٹری آپریشن(آپریشن سائیلینس) ملک کی تاریخ کے اس سیاہ ترین باب کوبند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔
اس ملٹری آپریشن میں حصہ لینے والے پاکستان کے بیٹوں میں سے ایک نام کیپٹن سلمان فاروق لودھی شہید تمغہ بسالت، ستارہ بسالت کا بھی ہے جو آج بھی ایس ایس جی کے چند بہترین کمانڈوز میں شمار ہوتے ہیں۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان آفیسر کی پاکستان کے لئے دی جانی والی خدمات کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ یہاں اس کا صرف مختصراً ذکر کرنا ہی ممکن ہوگا۔
کیپٹن سلمان نوعمری ہی سے پاک فوج کے دلدادہ تھے اسی لئے وہ بحیثیت کمیشنڈ آفیسر پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے مگر ان کے والدین انہیں میڈیکل ڈاکٹر بنانے پر مضر تھے۔ کیپٹن سلمان نے اپنی ہمشیرہ کی معاونت سے بڑی مشکلوں سے اپنے والدین کی منت سماجت کر کے انہیں منایا۔ اوریوں انہیں103پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ پاک فوج میں شمولیت اختیارکرنے کاموقع ملا۔
کیپٹن سلمان نے پاک فوج میں اپنی افتادِ طبع کے مطابق ایس ایس جی گروپ کا انتخاب کیا اور بعد ازاں وہ اس کی ایک اینٹی ٹیررسٹ کمپنی’ضرار کمپنی’ سے منسلک ہو گئے۔ پاکستان کے اس جری سپوت نے سنہ 2004ء کے دوران جنوبی وزیرستان میں بھی انسدادِ دہشت گردی کے ضمن میں ‘آپریشن المیزان’ کے دوران اپنی خدمات سرانجام دیں، جب ہمارے قبائلی علاقہ جات دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ کیپٹن سلمان کو قبائلی علاقہ جات میں ان کی گراں قدر خدمات سرانجام دینے کے عوض صدر جنرل مشرف کی جانب سے تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔ اس کے بعد بھی انہیں مزید ایک بار تمغہ بسالت کے لئے نامزد کیا گیا مگر انہوں نے یہ کہہ کر اُسے لینے سے انکار کر دیا کے باقی سپاہیوں کا بھی حق بنتا ہے لہٰذا یہ اعزازدیگر افسران میں سے کسی ایک کودے دیا جائے۔
اپنے مزاج سے اپنے افسران اور دیگر ساتھیوں کے دلوں میں گھر کرنے والے کیپٹن سلمان شہید کے جونیئر آفیسر کیپٹن بلال ظفر شہید اس قدر ان کے مداح تھے کہ وہ ہمیشہ اپنی جیب میں کیپٹن سلمان شہید کی تصویر رکھتے تھے کیونکہ وہ ان کے لئے ایک استاد کا درجہ رکھتے تھے۔
کیپٹن سلمان کی شادی کے موقع پر(لال مسجد آپریشن سے 8 ماہ قبل) ان کی ہمشیرہ نے ان کی شہادت سے متعلق خواب دیکھا جس سے وہ قلبی اضطراب میں مبتلا ہو گئیں۔ ایسے ہی متعدد خواب کیپٹن سلمان کی شہادت سے قبل کیپٹن سلمان نے خود اور خاندان کے دیگر افراد نے بھی دیکھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کے اہل خانہ کے خوابوں کو اس وقت مقبولیت بخشی جب وہ آپریشن سائیلینس کے لئے لال مسجد میں اپنے دیگر ساتھیوں سمیت داخل ہوئے۔ کسی نے بھی یہ گمان نہیں کیا تھا کہ محض عام سے مدرسے کے طلبہ سے انہیں اس قدد مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مدرسے کے نام نہاد طلبہ کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے خلاف راکٹ لانچرز،ہینڈ گرنیڈز اورمشین گنز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ غرض یہ کہ پوری لال مسجد اور جامعہ حفظہ(خواتین کے مدرسے) کا احاطہ بوبی ٹریپ تھا اور بیشتر جگہوں پر بارودی سرنگوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ اس طرح حربی حکمت عملی کے اعتبار سے پورے علاقے کو تیار کرنا محض مدرسے کے عام سے طلبہ کی بس کی بات نہیں لگتی۔ وہاں یقیناً تربیت یافتہ دہشت گرد موجود تھے ، اسی لئے جامعہ حفضہ کی صرف سیڑھیوں پرہی ایس ایس جی کے چار جوانوں کا شہید ہو جانا ہرگز اچنبھے کی بات نہیں۔
کیپٹن سلمان کے ساتھ اس وقت آپریشن میں موجود ایک لانس نائیک کے مطابق کیپٹن سلمان نے ہی انہیں پیچھے دھکیل کر ان کی جان بچائی جب ایک گرنیڈ ان کے پاؤں کے قریب آکر گرا۔ کیپٹن سلمان کے دیگر ساتھیوں اوراس آپریشن میں شریک ان کے دوستوں کے مطابق کیپٹن سلمان بہت محتاط تھےاورانہوں نے ہرممکن کوشش کی شرپسند خود ہتھیار ڈال دیں مگر ان کی بھی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔
اِدھر کیپٹن سلمان کے چھوٹے بھائی نے خواب دیکھا کہ کیپٹن سلمان انہیں ‘خدا حافظ’ بول رہے ہیں۔ اور کیپٹن سلمان کی ہمشیرہ نے شہادت کے کلمات، اور اپنے بھائی کی شہادت کے اعلانات ہوتے ہوئے دیکھے۔ اُدھر کیپٹن سلمان اپنے وطن کی حفاظت کے عہد کو نبھاتے ہوئے اپنی آخری سانسیں بھی اس وطن پر نچھاور کر گئے۔ ایس ایس جی کے اس بہادر بیٹے کو آٹھ گولیاں لگیں جن میں سے ایک ان کےسر سے گزرتی ہوئی ان کی گردن میں لگی اور کیپٹن سلمان کو شہادت کے اعلیٰ ترین رتبے پر فائز کر گئی۔ اور یوں کیپٹن سلمان شہید کی عظمت و ہمت کی یہ داستان سنہری حروف کے ساتھ ہمیشہ کے لئے عسکری تاریخ میں محفوظ ہو گئی۔ کیپٹن سلمان فاروق لودھی شہید کو بعد از شہادت ان کی ملکی دفاع سے متعلق لازوال خدمات کے اعتراف میں ستارہ بسالت سے نوازا گیا۔ اس طرح ابھی تک وہ واحد شہید آفیسر ہیں جو تمغہ بسالت اور ستارہ بسالت دونوں اعزاز پانے کا شرف رکھتے ہیں۔
آج اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ لال مسجد آپریشن میں ناحق لوگوں کو مارا گیا ، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ پاک فوج کے 10 تربیت یافتہ کمانڈوز کو کس نے شہید کیا؟ درجنوں کمانڈوز زخمی ہوئےاورمتعدد کی ٹانگیں لال مسجد اور جامعہ حفضہ میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی نذر ہو گئیں۔ کیا یہ سب پاکستان کے بیٹے نہیں ہیں؟ جو اپنے لواحقین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑکرملکی دفاع کے لئے ہمہ وقت قربان ہونے کو تیار کھڑے رہتے ہیں۔ اوراس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے ان قومی ہیروز کے اہلِ خانہ خوف کے سائے میں اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے مجرم پاکستان کے دارلحکومت میں آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔