سید صلاح الدین کے لئے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے؟ عیدالفطر کی رات امریکی حکومت نے ایک خصوصی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ انہیں عالمی دہشت گرد قرار دے ڈالا۔اس ایگزیکٹو آرڈر کو غور سے پڑھیں۔ سید صلاح الدین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2014میں حزب المجاہدین نے بھارت کے’’زیر انتظام‘‘ جموں و کشمیر میں ایک دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں17افراد زخمی ہوئے۔17افراد کو زخمی کرنے کے الزام میں سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا جس پر بھارتی حکومت خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے جبکہ بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہ کرکے ٹرمپ نے بڑی زیادتی کی ہے۔
امریکی حکومت کے اس اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کی بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات ہوئی جس میں مودی نے امریکہ سے فوجی اسلحہ خریدنے کے کچھ معاہدوں پر دستخط کئے۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ نے اپنے ایک گاہک کو خوش کرنے کے لئے اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑا دیا جسے دیکھ دیکھ کر گاہک خوش ہوتا رہے گا لیکن سید صلاح الدین کو اس کاغذ کا کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوگا۔ امریکی حکومت کے اس ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سید صلاح الدین امریکہ کا کوئی سفر نہیں کرسکتے اور امریکہ میں کوئی جائیداد یا اثاثے نہیں رکھ سکتے۔ سید صلاح الدین نے امریکہ جاناہے نہ وہاں کوئی جائیداد خریدنی ہے پھر انہیں کیا نقصان ہوگا؟ بھارت کے خیال میں یہ اس کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے لیکن غور کریں تو امریکہ کے اس عمل کا زیادہ فائدہ سید صلاح الدین اور کشمیر کی تحریک آزادی کو ہوگا۔ 8جولائی کوحزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان مظفر وانی کی پہلی برسی آنے والی ہے۔ سید صلاح الدین 8جولائی کو پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جلسے جلوسوں اور مظاہروں کی تیار ی کررہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے انہیں عالمی دہشت گرد قرار دینے کا اعلان ان کے لئے غیبی امداد ثابت ہوگا اور8 جولائی سے پہلے ہی پورے جموں و کشمیر میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف مظاہروں میں شدت آئے گی۔ سید صلاح الدین ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ انہوں نے 1987میں سرینگر سے ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا لیکن الیکشن میں دھاندلی ہوگئی۔ یاسین ملک ان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ دھاندلی کا الزام لگانے پر دونوں کو گرفتار کرلیا گیا اور رہائی کے بعد دونوں نے عسکریت کا راستہ اختیار کرلیا۔ سید صلاح الدین کا اصل نام سید یوسف شاہ ہے اور ساتھی انہیں پیار سے پیر صاحب کہتے ہیں۔ پیر صاحب نے کبھی امریکہ پر حملے کی دھمکی نہیں دی نہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے لیکن مودی کی فرمائش پر ٹرمپ صاحب نے سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے کر خود ہی امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اب مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جھنڈے بھی نذر آتش ہوں گے اور اس کی ذمہ داری پیر صاحب پر نہیں بلکہ ٹرمپ پر عائد ہوگی۔ 28جون کو بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں میرا ایک کالم شائع ہوا جس میں اس ناچیز نے لکھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت سید صلاح الدین کو دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند سمجھتی ہے اور پیر صاحب کا کہنا ہے کہ وہ بھگت سنگھ کے راستے پر چل رہے ہیں، اگر بھگت سنگھ حریت پسند تھا تو میں بھی حریت پسند ہوں اور اگر بھگت سنگھ دہشت گرد تھا تو میں بھی دہشت گرد ہوں۔ یہ کالم پڑھنے کے بعد بھارت کی ایک معروف خاتون صحافی نے پیغام بھیجا کہ اگر آپ کشمیر میں مسلح مزاحمت کرنے والوں کو حریت پسند کہتے ہیں تو کیا ہم بلوچستان میں مسلح مزاحمت کرنے والوں کو بھی حریت پسند سمجھیں؟
میں نے اس صحافی کو جواب دیا کہ کشمیر اور بلوچستان میں بڑا فرق ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں کے ذریعہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا ہے جبکہ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔ بلوچستان میں ظلم و جبر کے خلاف تو ہم بھی آواز بلند کرتے ہیں لیکن کیا آپ کو کشمیر کی تحریک آزادی میں بلوچستان والوں کے کردار کا پتاہے؟ خاتون صحافی کچھ حیران ہوگئیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ بلوچ قوم پرستوں کیلئے انتہائی قابل احترام بزرگ دانشور اور ادیب پروفیسر عبداللہ جان جمال دینی کی آپ بیتی ’’لٹ خانہ‘‘ پڑھو۔ ’’لٹ خانہ‘‘ میں جمال دینی صاحب نے اپنے ایک ترقی پسند شاعر دوست کمال ا لدین شیرانی کا ذکر کیا ہے جنہوں نے 1947کے جہاد کشمیر میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا تھا۔ شیرانی صاحب کا تعلق ژوب سے تھا اور جمال دینی صاحب انہیں ’’غازی‘‘ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ ایک اور ترقی پسند انقلابی شاعر احمد فراز نے بھی جہاد کشمیر میں خود حصہ لیا تھا اور وہ زندگی کے آخری لمحات تک اپنے عالم شباب کے اس ایڈونچر پر فخر کا اظہار کیاکرتے تھے۔ امریکہ کس کس کو دہشت گرد قرار دے گا؟ آج کے کچھ نام نہاد ترقی پسند اور لبرل دانشور بھگت سنگھ سے لے کر چے گویرا کو حریت و انقلاب کی علامت قرار دیتے ہیں لیکن سید صلاح الدین کو حریت پسند تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ سید صلاح الدین سے گفتگو کریں تو وہ آپ کو کشمیر کے بارے میں علامہ اقبال کے اشعار سنانا شروع کردیں گے۔ میں پہلے بھی اپنے قارئین کو بتا چکا ہوں، دوبارہ دہراتا ہوں کہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی کی بنیادیں کھڑ ی کرنے میں علامہ اقبال کا اہم کردار ہے۔ پیام مشرق میں ان کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ شامل ہے جو انہوں نے جون 1921میں سرینگر کے باغ نشاط میں بیٹھ کر لکھی تھی اور کشمیریوںکے بےقرار دلوں میں آزادی کی آگ بھڑکنے کی پیش گوئی کی تھی۔ پھر اسی علامہ اقبال نے13جولائی 1931کو سرینگر میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی ا ور 14اگست 1931کو لاہور میں یوم کشمیر منایا۔ روزنامہ انقلاب لاہور کی فائلوں میں 14اگست 1931کو لاہور میں علامہ اقبال کی زیر صدارت یوم کشمیر کے جلسے کی روداد پڑھی جاسکتی ہے جس میں شاعر مشرق نے مسلمانوں سے کہا کہ اٹھو اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوجائو۔ کیا امریکہ شاعر مشرق کو بھی دہشت گرد قرار دے گا؟ اپنے فیض احمد فیض کا کیا کریں گے؟ انہوں نے 3جنوری 1948کو پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والے اس بیان پر دستخط کئے جس میں جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت کی گئی۔ کیا فیض بھی دہشت گرد تھے؟ حبیب جالب کو کیا کہیں گے جنہوں نے کہا تھا؎
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر ظالم و جابر کا کرتے ہی چلو سرخم
سید صلاح الدین نے وہی کیا جس کا درس انہیں اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ اور جالبؔ نے دیا، اگر سید صلاح الدین دہشت گرد ہے تو پھر یہ سارے شاعر بھی دہشت گرد ہیں، پھر ہر غیرت مند کشمیری، ہر محب وطن پاکستانی اور ہر آزادی پسند مسلمان دہشت گرد ہے۔ امریکہ کس کس کو دہشت گرد قرار دے گا؟
نوٹ: یہ کالم مورخہ 29 جون 2017 کو روزنامه جنگ میں شائع ہوا۔