وہ ایک زندہ، جیتا جاگتا شخص تھا، جسے آگ کے سرخ شعلوں نے ایسے لپیٹ رکھا تھا کہ اس کی چیخیں شاید پتھر سے بھی ذیادہ سخت دل رکھنے والوں کو موم کر دیتیں، لیکن بھرے مجمع میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس کو آگ سے بچا لیتا۔ اس کے ارد گرد پولیس کا بھی ایک ہجوم تھا لیکن وہ سب خاموش کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، بلکہ شاید وہ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انسانیت اس منظر کو دیکھ کر شرما رہی تھی۔ تھوڑی ہی دور کچھ لوگ دوکانوں اور گھروں کو لوٹ کر انہیں نذرِ آتش کر رہے تھے۔ یہ بدنصیب بھی شاید اسی بستی کا مکین تھا جسے نذرِ آتش کیا جا رہا تھا، اس کا جسم جل کر سیاہ ہو رہا تھا، مجمع میں سے شاید کسی کو اس پر رحم آگیا کہ ایک آواز آئی: ”اس پر پانی ڈالو!“ یہ آواز تھی کہ ایک دم سب خاموش ہو گئے, لیکن اسی خاموشی کو توڑتے ہوئے ایک اور آواز آئی: ”کوئی پانی نہیں اس کے لیے. اسے مرنے دو!“۔ آگ لگی بستی میں سے ایک اور نوجوان آگ سے بچنے کے لئے باہر نکلتا ہے اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہجوم اسے قابو کر لیتا ہے اور آگ لگی بستی میں سے نکلنے کے جرم کی سزا مارنے اور پیٹنے کی شکل میں ملتی ہے۔ جب مار مار کر ہجوم تھک جاتا ہے تو ایک بدھ بھکشو آگے بڑھتا ہے، اس کے ہاتھ میں تلوار ہے۔
اپنا پورا زور لگاتے ہوئے وہ تلوار سے کئی وار کرتا ہے اور بدحال نوجوان کی سانسیں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ جب ہجوم کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ اس نوجوان میں زندگی کی سانسیں باقی نہیں رہیں تو وہ تسلی کے ساتھ یوں آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے کسی درندے کو ختم کیا ہو۔ اس نوجوان کا یہ انجام دیکھ کر بہت سے لوگ آگ میں ہی زندہ جل گئے، ان چیخیں آہستہ آہستہ اس ہجوم کے نعروں میں دب گئیں، ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید یہ کسی فلم کا منظر ہے۔ نہیں! ہر گز نہیں! یہ اسی دنیا کا ایک حقیقی منظر ہے جہاں میڈیا آزاد ہے، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سینکڑوں این جی اوز کام کر رہی ہیں، انسان تو بہت دور کی بات ہے، اگر کہیں جانوروں پر بھی ظلم ہو تو دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں، ان کے تحفظ کے لئے دنیا کی تمام تنظیمیں سڑکوں پر آجاتی ہیں، اور جب تک انہیں یہ یقین دہانی نہ کروائی جائے کہ ان کو مناسب سہولتیں دی جائیں گی یہ لوگ گھروں کو واپس نہیں جاتے۔ لیکن اس انسانیت سوزی پر نہ تو عالمی تنظیموں کی جانب سے کوئی آواز بلند ہوتی ہے نہ میڈیا میں ان کو جگہ ملتی ہے۔ یہ مناظر دنیا کے کسی ایسے ویسے خطے کے نہیں بلکہ سب سے بڑی سیکولر ریاست بھارت، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے بیچ میں ایک چھوٹی سی ریاست برما کے قصبے میں رونما ہوئے ان باسیوں کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو کر آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں یہاں چند تاجروں کے ذریعے اسلام کی روشنی پہنچی، اور پھر برما میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ برما میں بدھ بھکشوﺅں کی حکومت نے اسلام کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس خطے پر قبضہ کر کے اس کا نام میانمار رکھ دیا۔ سنہ 1824ء میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا اور پھر 1938ء میں اسے آزاد کیا گیا،
لیکن اس کے باوجود مسلمان امن کے مذہب کے داعی بدھ بھکشوﺅں کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں، اور اس نام نہاد آزادی کے باوجود لاکھوں مسلمان اپنی اصل شناخت سے محروم ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ”مسلم مٹاﺅ“ پالیسی کا آغاز کیا گیا، اور مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کر جائیں۔ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی ذیادہ بد تر سلوک کرنے کی وجہ سے پانچ لاکھ کے قریب مسلمان ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے، لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہمسایہ ممالک نے بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تحریکِ پاکستان کے وقت بھی برما کے روہنگیا مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا گیا۔ 1962ء میں فوجی حکومت کے دوران مسلمانوں پر عرصہء حیات تنگ کرنے کا آغاز ہوا، جب ان پر تمام سرکاری اداروں کے دروازے بند کر دیے گئے اور پہلے سے موجود سرکاری ملازمتوں پر فائز مسلمانوں کو برخاست کر دیا گیا۔ 1980ء میں ان پر حج سمیت دیگر مذہبی اجتماعات میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسی وقت انہیں برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق روہنگیا مسلمان دنیا کی سب سے ذیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔2011ء کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ یا تو اس ملک سے نکل جائیں یا پھر وہ مہاجر کیمپوں کا رخ کریں جہاں پہلے ہی چار لاکھ سے زائد مسلمان نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اور جدیدیت کے اس دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے روہنگیا مسلمان ان کیمپوں میں ضروریات زندگی کے لئے دن رات ترستے ہیں۔ حالیہ مسلم نسل کشی مہم کا آغاز گزشتہ سال مئی 2012ء میں اس وقت ہوا جب فوج کے ہاتھوں گیارہ بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ سرکاری سرپرستی میں شروع ہونے والی اس مہم میں بدھوں نے ایک ایک بس کو نشانہ بنایا جس میں مسلمان سوار تھے، اور اسی دوران یہ افواہیں پھیلانا شروع کر دی گئیں کہ حکومت نے مسلمانوں کو برما سے نکالنے کا آغاز کر دیا ہے، اور جو رضاکارانہ طور پر اپنے گھر بار چھوڑ کر جائے گا اسے سہولیات بھی دی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بستیوں پر انتظامیہ کی سرپرستی میں شدت پسند بدھوں نے حملہ کر دیا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق ایک ہفتے میں 2000گھروں کو جلایا گیا، ایک لاکھ مسلمان اس مہم کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے ہیں اور 20,000 سے زائد کو قتل جبکہ ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
ان بستیوں میں زندہ جل جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے کیا گیا جس کے بانی کا کہنا تھا کہ ”بارش کے موسم میں کوئی بھکشو گھر سے باہر نہ نکلے مبادا اس کے پاﺅں تلے برستا کے کیڑے نہ آ جائیں۔“ ایسا کیوں ہے؟ اس کی سیدھی وجہ تو یہ ہے کہ دنیا میں ستاون (57) سے زائد اسلامی ملک اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں۔ اگر آپ ان کے وسائل کا اندازہ لگائیں تو صرف سعودی عرب کے پاس آئل (تیل) کے ذخائر دنیا کے کُل ذخائر کا 25.4% ہے، ۔ ایران، عراق، کویت اور دیگر اسلامی ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ صرف مشرقِ وسطیٰ میں قدرتی گیس کا ذخیرہ دنیا کا 40% ہے۔ ازبکستان اور کرغستان کا شمار ان بڑے ممالک میں ہوتا ہیں جہاں سونے کے ذخائر موجود ہیں، تاجکستان میں المونیم کے سب سے ذیادہ ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اگر مسلم دنیا کے زرعی ذخائر کا تخمینہ لگایا جائے تو مجموعی طور پر دنیا میں سب سے ذیادہ ذخائر انہی کے پاس ہوں گے۔ ہیومن ریسورس کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی مسلم دنیا کے پاس ہے۔ آج جہاں مختلف ممالک پریشان ہیں کہ ان کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے ، وہیں مسلم دنیا میں یہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ان کے پاس افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دنیا میں سب سے ذیادہ رقبہ مسلم ممالک کے پاس ہے۔ دنیا میں آٹھ بڑے ممالک ایٹمی قوت کے مالک ہیں، اور ان آٹھ میں سے ایک مسلم ملک پاکستان بھی ہے، جبکہ ایران کے بارے میں بھی اطلاعات موجود ہیں کہ وہ ایٹمی قوت حاصل کرنے کے قریب ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ سب اتحاد و یکجہتی سے بہت دور ہیں۔ ان ممالک کے حکمران اور عوام میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔
یہ لوگ کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اسلام کے اس آفاقی پیغام کو بھول چکے ہیں جو ان سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے اور جس کی وجہ سے مشرق میں کسی ایک کے پاﺅں میں کانٹا چبھنے پر مغرب کا مسلمان پریشان ہو جائے۔ لہٰذا دنیا کی دوسری قوموں نے ان کی خامیوں کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اسلامی کانفرنس سمیت اسلامی ملکوں پر مشتمل تمام تنظیمیں اپنی ہی قوم کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آئیں، کیونکہ ان کے حکمرانوں کی ڈور دوسروں کے ہاتھوں میں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ کبھی برما میں ان کی نسل کشی کی جاتی ہے تو کبھی کشمیر میں ان کا قتل عام ہوتا ہے۔ اسرائیل ایسا چھوٹا ملک بھی وسائل سے مالا مال عرب ریاستوں کو آنکھیں دکھاتا ہے، اور یہ سب اس کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ان کی کوئی نہیں سنتا، اور سنے بھی کیوں؟؟ علامہ اقبال نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ !ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات