سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے!
تاریخ میں 8 جولائی کا دن مختلف واقعات، ایجادات اور سانحات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے مگر اس برس یہ دن یوں اہم ہو گیا ہے کہ اس روز سماجی خدمات کے حوالے سے عالمی طور پر ممتاز مقام رکھنے والے “ایدھی ٹرسٹ” کے بانی عبدالستار ایدھی اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔
عبدالستار ایدھی یکم جنوری 1928ء کو اونتوا، گجرات (برٹش انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا کپڑے کا کاروبار تھا اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ ذیابیطس کی مریضہ تھیں۔ جب عبدالستار ایدھی گیارہ برس کی عمر کو پہنچے تو ان کی والدہ فالج کا شکار ہو گئیں۔ اس کم عمری میں انہوں نے اپنی والدہ کی دیکھ بھال کا بیڑا اٹھایا اور اس فریضے کو احسن طریقے سے نبھایا، یہی ذمہ داری آگے چل کر بیمار اور لاچار لوگوں کی نگہداشت میں ممدومعاون ثابت ہوئی۔ ان کی والدہ انہیں جیب خرچ کے طور پر جو دو پیسے دیتیں، ان میں سے ایک خود پر خرچ کرتے اور ایک پیسہ کسی ضرورت مند کو دیتے، اس طرح شروع سے ہی انہوں نے حاجت مندوں کے کام آنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ عبدالستار ایدھی کی عمر انیس برس تھی جب انہیں اپنی والدہ کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔
پاکستان کے قیام کے بعد مہاجر کیمپوں میں موجود زخمیوں اور بیمار افراد کی مدد کی غرض سے بھی عبدالستار ایدھی نے امداد اکٹھی کرنے کی سعی کی۔
قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوا۔ ابتداً عبدالستار ایدھی نے بھی کپڑے کے کاروبار میں حصہ لیا۔ کچھ عرصے بعد اپنی کمیونٹیی کی مدد سے انہوں نے”فری ڈسپنسری” کا آغاز کیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں flu کی وباء پھیلی ہوئی تھی، اور عبدالستار ایدھی صاحب کے بقول لوگ فٹ پاتھوں پر پڑے ہوئے تھے جن کا علاج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ان حالات میں انہوں نے میڈیکل کالج کے طالب علموں کو رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ خود امداد اکٹھی کرنے کی غرض سے انہوں نے بھیک بھی مانگی اور جمع شدہ امداد سے کام کا آغاز کیا۔
اپنی باقی ماندہ زندگی سماجی خدمات کیلئے وقف کرنے کا عزمِ مصمم لئے ہوئے عبدالستار ایدھی نے محض پانچ ہزار روپے کی رقم سے “ایدھی ٹرسٹ” کے نام سے ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا جو ترقی کے بعد “ایدھی فاؤنڈیشن” کے نام سے جانا جانے لگا۔ اپنے آغاز سے لےکر آج تک اس فاؤنڈیشن نے بیس ہزار سے زائد لاوارث شِیرخوار بچوں اور پچاس ہزار سے زائد یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ چالیس ہزار سے زیادہ نرسوں کو پیشہ ورانہ تربیت دینے کا اعزاز بھی ایدھی فاؤنڈیشن کو حاصل ہے جبکہ اس کے زیرِ نگرانی چلنے والے شہری اور دیہاتی ویلفیئر سینٹرز اور ذہنی طور پر معذور افراد کے لئے بنائے گئے کلینکس کی کُل تعداد تین سو سے زیادہ ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس، جسے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہونے کا اعزاز حاصل ہے، نے کام کا آغاز ان حالات میں کیا کہ اکلوتی ایمبولینس کو عبدالستار ایدھی بیس برس تک خود چلاتے رہے، لیکن آج یہ ایمبولینس سروس نہ صرف چوبیس گھنٹے خدمت کی فراہمی کے لئے دستیاب ہے بلکہ افریقہ، یورپ، مشرق وسطٰی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی ریلیف آپریشنز میں حصہ لے چکی ہے۔
عبدالستار ایدھی اپنے درویشانہ طرز زندگی کیلئے بھی شہرت رکھتے تھے، جہاں ان کے امداد اکٹھی کرنے کے طریقے انوکھے تھے۔ ان کے پاس دو جوڑے کپڑوں کے تھے اور انہوں نے کبھی بھی اپنے ادارے سے اپنے کام کی تنخواہ وصول نہیں کی تھی۔
2013ء میں ان کے مرض کی تشخیص ہوئی جس کے مطابق ان کے گردے ناکارہ ہو چکے تھے اور ان کا مقامی اسپتال میں باقاعدگی سے ڈائیلسز جاری تھا۔ 8 جولائی کی شام کو انہیں سانس لینے میں دقت کی وجہ سے وینٹی لیٹر مشین پر شِفٹ کیا گیا جس کے چند گھنٹوں بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے سوگواران میں ان کی بیوہ، چار بچے، ہزاروں لاوارث شیرخوار بچے، ہزاروں یتیم بچے، ایدھی فاؤنڈیشن میں پناہ لینے والی کئی بے سہارا خواتین اور پوری پاکستانی قوم شامل ہے۔
ان کی وصیت تھی کہ ان کے جسم کے تمام اعضاء عطیہ کر دئیے جائیں مگر ان کی صحت کی دگرگوں حالت کی وجہ سے صرف ان کی آنکھیں ہی عطیہ کی جا سکی ہیں، اور ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین ایدھی ولیج میں کی گئی ہے جہاں ان کی میّت کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف اعزازات سے نوازا گیا جن میں ” نشانِ امتیاز” اور “لینن پِیس پرائز” قابل ذکر ہیں۔ ان کی وفات پر مختلف شخصیات نے مختلف الفاظ میں انہیں خراجِ تحسین پیش کیا، لیکن آخر میں بلقیس ایدھی صاحبہ کے یہ الفاظ حقیقت سے بےحد قریب معلوم ہوتے ہیں:
” ایدھی صاحب جیسا فرزند اب کوئی ماں پیدا نہیں کر سکے گی!”