مختلف موضوعات کو جوڑنے کی سعی ناقص ہے- تقابل، موازنہ اور قیاس وغیرہ پر اک نظرعامی – سب سے پہلے دو الفاظ ‘ کافر ‘ اور ‘ جاہل ‘ کا تقابلی جائزہ –
ہر گلی و محلے میں بے باک و بے لگام استعمال ہوتے یہ دو الفاظ , دونوں الفاظ بظاہر اک دوسرے سے شائد کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں مگر محرکات و رد عمل کو دیکھا جائے تو دونوں میں رتی برابر بھی فرق نہیں- دونوں الفاظ کی سب سے پہلی مشترک صفت ‘ انکار ‘ ہے- مخاطب ‘ مخالف ‘ سامنے والے کے الفاظ ‘ اعمال ‘ کردار ‘ تحاریر ‘ تقاریر ‘ تدابیر ‘ تقلید وغیرہ کا انکار – بلکہ لفظ ‘ تکفیر ‘ زیادہ موزوں ہے جس کو صرف مذہب و مسلک کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے عرف عام میں- تکفیر کا آسان سا مطلب انکار کرنا ہے ‘ کافر وہ ہوا جس نے انکار کیا ‘ کفر کا مطلب اگر لغت میں دیکھیں ناشکری ‘ ضد ‘ خدا کا انکار وغیرہ لکھا ہوا ہے – ‘ کفران نعمت ‘ مشہور مرکب – اختلاف کی شدت ضد ‘ انکار اور کافر سے ہوتی ہوئی جہنمی تک پہنچ جاتی ہے- اختلاف کی اقسام تو انگنت ہیں مگر ہمارے معاشرے میں آج کل مذہبی و سیاسی اختلاف بہت ہی زیادہ نمایاں ہیں – مخاطب کا تائید نہ کرنا ‘ تعریف نہ کرنا ‘ تقلید نہ کرنا ‘ ترویج نہ کرنا وغیرہ محرک ہے , رد عمل میں ضد , نفرت , تنقید , تحقیر , دوری ‘ تکفیر وغیرہ شامل ہیں –
اب لفظ ‘ جاہل ‘ کا ‘کافر’ سےمحرکات و رد عمل کے لحاظ سے تقابل کرایا جائے تو اختلاف سے شروع , نفرت و تکفیر پر ختم –
وقت اجازت دے تو اک مختصر مکالمہ ” کافر بمقابلہ جاہل ” پڑھ لیں
(جاہل مخاطب ہے کافر سے : ہم دونوں کا معاملہ ملتا جلتا ہی ہے ‘ لوگ تم سے بھی نفرت کرتے ہیں مجھ سے بھی . لوگ تم سے بھی دور بھاگتے ہیں , مجھ سے بھی _ لوگ تمہیں ہزاروں میل دور سے ہی سلام کرتے ہیں , قریب نہیں آتے , مجھے بھی _ لوگ تمھارے بارے میں لوگوں سے کہتے ہیں کہ اس سے بچنا , اپنا وقت برباد نہ کرنا , میرے بارے بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جاہل, سے بحث مت کرنا _ لوگ ہمیشہ کے لئے تمہیں دھتکار دیتے ہیں ‘ .مجھے بھی _ہم دونوں کا معاملہ اک جیسا ہی ہے)
انٹرنیٹ کی دنیا سے لفظ ‘ کافر ‘ و ‘ جاہل ‘ کی مماثلت , محرکات و رد عمل کے تناظر میں دیکھنا بہت آسان ہے. سماجی رابطہ کی دو مشہور سائٹس ‘فیس بک’ اور ‘ ٹویٹر ‘ پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی بحث , مسلمان اور ملحدین کی بحث , مسلمانوں کے مذاہب و مسالک کی آپس میں بحث ‘ مختلف ممالک کے لوگوں کے مباحث – سیاسی قائدین و سیاسی کارکنان بلکہ سیاسی مقلدین کے بلند و بانگ مباحث , اداروں کے عہدیداران و ملازمین کی بحث , اساتذہ و طلبہ کی بحث وغیرہ وغیرہ – لفظ ‘ بحث ‘ ویسے تو اک مثبت اور صحت مند لفظ ہے مگر رائج معنی کے مطابق یہ اک منفی لفظ ہے اور اس کو نہ کرنے پر بھی مباحث ہوتے ہیں – عملی مظاہرہ اک دوسرے کے خلاف پوسٹس لکھ کر شئیر کر کے ‘ ٹویٹس لکھ کر ‘ ہیش ٹیگز بنا کر اور ان کو ٹرینڈ کرا کے , اک دوسرے کی تکفیر کی جاتی ہے , نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے – ڈھکی چھپی بات نہیں ‘ سب لوگ جانتے ہیں
ذرا مخصوص مسلکی تقابلی مگر فقط سطحی جائزہ لیا جائے کہ امام ابو حنیفہ(دیوبندی اور بریلوی جن کی تقلید کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں) کا مشہور قول ہے کہ اگر میری کوئی بات قرآن و حدیث کے منافی ملے تو اس کو دیوار پر دے مارنا اور قرآن و حدیث کو اپنانا – اب اگر آج کے آس پاس مختلف گروہوں کو غور سے دیکھا جائے , مثلاً غیر مقلدین احباب نے کتنی باتیں امام ابن تیمیہ , امام ابن القیم الجوزی , شیخ عبدالوہاب نجدی , شیخ ابن باز حضرات کی دیوار پر مار کر صرف قرآن و حدیث کو اپنایا ہو ؟ جماعت اسلامی کے احباب نے اپنے جد امجد مولانا ابو الاعلٰی مودودی صاحب کی کتنی باتوں کو دیوار پر مار کر فقط قرآن و حدیث کو اپنایا ہے ؟ اسی طرح امامیہ , اسماعیلیہ , بوہری شیعہ حضرات نے اپنے اپنے امام کی کتنی باتوں کو دیوار پر مارا ہے آج تک ؟ آئمہ , مجتہدین , توحید پرست , امام سب انسان ہی تھے نا ؟ اور انسان سے غلطی ہو سکتی ہے , مگر یہ تو کوئی اصول نہیں کہ میرے پسندیدہ انسان سے غلطی نہیں ہو سکتی , تمہارے پسندیدہ انسان نے ہزار غلطیاں کی ہیں- سب نے ہی علم اور عمل پہنچایا ہے , جسے پہنچا ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ اس کو کس درجے قبول کرنا ہے ؟ تقابل کے بغیر ہی سچ ماننا ہے یا موازنہ کر کے عمل کرنا ہے؟ آگے بیان کرنا ہے کس صورت پھیلانا ہے وغیرہ وغیرہ
اب انہی احوال کا تقابل ذرا سیاسی جماعتوں سے کیا جائے , ہر جماعت کا منشور ہوتا ہے اور تمام جماعتوں کے منشور کے اکثرنکات اک جیسے ہوتے ہیں , کچھ ترجیحات میں فرق ہوتا ہے , کوئی سیاسی جماعت تعلیم کو پہلی ترجیح دیتی ہے, کوئی صحت کو , کوئی ماحول کو, کوئی صنعتوں کو , کوئی دفاع کو , کوئی تجارت کو , غرض لازمی کوئی ترتیب بنائی ہوتی ہے – اب سیاسی قائدین پر ہے کتنے لوگوں کو کارکنان بنا پاتے ہیں, کس طرح زیادہ لوگوں کو قائل کرتے ہیں کہ وہ دوسری جماعتوں کے سیاسی قائدین سے اچھے ہیں یا اچھے ثابت ہوں گے-
کچھ معصوم سوال
کیا ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن بنا جا سکتا ہے؟
کیا ایک ہی وقت میں صرف ایک ووٹ ایک ہی نشست پر کھڑے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو دیا جا سکتا ہے ؟
اس نمائندے اور کارکن کو کیا نام دیا جاتا ہے جو ہر چار پانچ سال بعد اپنا سیاسی قائد اور سیاسی جماعت بدل لیتا ہو؟ تمام منشور ملتے جلتے ہیں, تمام قائدین مخلص , جوش , جذبے والے ہیں, پھر ان میں سے صرف اک ہی کا انتخاب کیوں ضروری ہے؟
اس ” صرف ایک ” کو ذرا آئمہ مجتہدین پر قیاس کرکے دیکھیں , ایک وقت میں صرف ایک امام کے اجتہاد پر عمل کیوں ضروری ہے؟ کیا بیک وقت سارے اماموں کو ووٹ دیا جا سکتا ہے ایک ہی مجتہد کی نشست کے لئے ؟ حالانکہ سب درست , مخلص , باعمل , باعلم ہوں اگرچہ
واپس آئیں , سیاسی کارکنان اپنے سیاسی قائدین کو منشور کے نکات یا ترجیحات سے انحراف کرنے پر ان کے نئے نکات و اقوال کو دیوار پر مارتے ہیں کہ نہیں ؟
کتنی تعداد ہو منحرف سیاسی کارکنان کی کہ سیاسی قائد کی صحت پر فرق پڑ سکے ؟
ایک اور بیچ کا نقطہ ‘ کیا ہر شخص سیاسی قائد بن سکتا ہے ؟ بلکل بن سکتا ہے ‘ تو بنتا کیوں نہیں ؟ اس کا جواب قارئین خود .سوچیں
کسی سیاسی نمائندے کو مختلف شعبہ جات سے منسلک لوگ منتخب کرتے ہیں . سپاہی , ڈاکٹر , انجینئر , کسان , لوہار , بڑھئی , رنگساز , ڈرائیور , مالی , بینکر , کیشئر , تاجر , استاد وغیرہ سب ایک پسندیدہ سیاسی نمائندے کو منتخب کرتے ہیں . کیوں کرتے ہیں کہ اب ان سب کے حصے کی سیاست یہ نمائندہ کرے گا , آگے سب اس نمائندے کی ذمہ داری متعلقہ کاموں کی , ہمارا کام صرف منتخب کرنا تھا , جبکہ ہم اپنے اپنے شعبہ جات میں کام کریں گے –
اسی صورتحال کو مجتہد پر قیاس کریں , کہ ایک مجتہد ہمارے لئے قرآن و حدیث سے مسائل کا حل نکال کر پیش کرے گا , ہم اپنے متعلقہ کاموں میں مصروف رہیں گے –
یعنی ہر شخص مجتہد بن سکتا ہے , مگر بنتا کیوں نہیں ؟ یا چلیں کہلاتا کیوں نہیں ؟
تھوڑی سی مزید تفصیل اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے , اک اور عام سا قیاس
سائنس کیا ہے ؟ علم , کائنات میں , فضا میں , زمیں میں موجود اشیاء , عوامل کا علم , کیا ہر شخص یہ علم حاصل کر سکتا ہے ؟ بالکل! ہر شخص دو آنکھیں , دو کان , دو ہاتھ , دو پاؤں , ایک ذہن , ایک دہن رکھتا ہے . چلتے پھرتے , کھاتے پیتے , سوتے جاگتے , بھاگتے کھیلتے ہر شخص سائنس کو دیکھ رہا ہوتا ہے , مگر کیا سمجھ بھی رہا ہوتا ہے ؟
اک بات تو کائناتی سچ ہے کہ ہر شخص کا ہر عمل سائنس کا کوئی نا کوئی عمل کہلائے گا , اور انسان بلکہ کائنات کا بظاہر سائنسی عوامل کے بغیر کوئی وجود ہی نہیں رہ سکتا –
یعنی سائنسی عوامل سے چاہتے ہوئے بھی اک لمحے کا چھٹکارا نہیں مل سکتا انسانوں کو – مگر اک اصطلاح ہے ” سائنسدان ” کیا ہر انسان سائنسدان کہلاتا ہے ؟ یا مخصوص غور و فکر کرنے والا ‘ سائنسی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا ‘ دماغ استعمال کرنے والا وقت صرف کرنے والا
اب پھر قیاس کی باری ‘ ہم مسلمان ہیں ‘ ہمارے علم کا ماخذ قرآن و حدیث ہیں ‘ ہر مسلمان چاہتے ہوئے بھی قرآن و حدیث سے الگ نہیں ہو سکتا , ہر مسلمان قرآن و حدیث پڑھتا ہے کسی نا کسی درجے میں , مگر کیا ہر مسلمان قرآن و حدیث کو سمجھتا بھی ہے؟ ہر مسلمان کو قرآن و حدیث کے حروف نظر آتے ہیں , تراجم بھی ہو گئے مگر ابھی بھی ہر مسلمان قرآن و حدیث کو سمجھ نہیں پاتا – سائنسی عوامل پر غور کرنے والے کو سائنسدان کہتے ہیں اور ہر انسان سائنسدان نہیں ہوتا , قرآن و حدیث پر غور کرنے والے کو ” مجتہد ” کہتے ہیں ‘ جو کہ حروف و جملوں کی گہرائی میں جا کر ان کی عملی شکل کو آسان صورت میں مسائل کے حل کے طور پر سامنے لاتا ہے اور ہر .مسلمان مجتہد نہیں ہوتا
نیوٹن کے قوانین میٹرک میں پڑھائے جاتے ہیں – تیسرا قانون ہے ‘ ہر عمل کا اک رد عمل ہوتا ہے.’ گیند دیوار پر مارنا اک عمل , ٹکرا کر واپس کسی بھی سمت جانا رد عمل – عام برتن میں پانی ڈال کر , اوپر سے ڈھک کرچولہے پر رکھنا , تو گرمائش سے بھاپ کا بننا اک عمل , بھاپ کا اوپر اٹھتے ہوئے ڈھکن پر قوت لگانا رد عمل – اصول بتا دیا نیوٹن نے ارد گرد غور و فکر کر کے , اب گیند چاہے کرکٹ کی ہو , فٹبال کی ہو , آئس ہاکی کی ہو , باسکٹ بال ہو , والی بال ہو , پیچھے اصول ایک ہی ‘عمل کا رد عمل’ – کیا ہر انسان نے یہ اصول بتایا ؟ نہیں ! اربوں انسانوں میں سے صرف چند نے , جبکہ آنکھیں تمام انسان رکھتے ہیں- مگر قانون نیوٹن نے وضع کیا – اسی طرح بھاپ سے انجن چلاؤ , ٹربائن چلاؤ , گرمائش یا ٹھنڈک کا کوئی کام لو , عمل کا رد عمل اک قانون بتا دیا نیوٹن نے – مگر انجن , ٹربائن , اے سی کسی اور نے بنائے . ان سب نے نہ تو نیوٹن کو برا بھلا کہا نہ اس کے قوانین ہی سے برأت کا اعلان کیا, بلکہ ان قوانین کو ہی استعمال کر کے فائدہ مند اشیا ایجاد کیں –
اسی طرح آئمہ مجتہدین نے قرآن و حدیث پر غور کر کے مسائل کے حل کے لئے اصول بتا دئیے , حالانکہ ہر مسلمان قرآن حدیث پڑھتا ہے مگر اس درجے کا غور و فکر نہیں کرتا یا کر پاتا کہ مسائل کا حل نکال سکے- اگر آج جدید دور کے مسائل حل کرنے کے لئےکوئی مسلمان قرآن و حدیث پر غور کرنے بیٹھے گا تو آئمہ مجتہدین کے وضع کردہ قوانین کو سامنے رکھے گا , اگر مخلص ہوا تو پہلے بنیادی قوانین کو مثالوں سمیت سمجھے گا- پھر جدید حل بتائے گا بغیر آئمہ پر تنقید کئیے بغیر , بلکہ پہلے شکریہ ادا کرے گا کہ ان آئمہ کی ریاضت کی بدولت جدید مسئلہ حل ہو گیا – بالکل اسی طرح جس طرح لوگ نیوٹن , آئن سٹائن , جارج سٹیفن , گراہم بیل , رائٹ برادرز وغیرہ کا شکریہ .ادا کرتے ہیں
اور آئمہ مجتہدین ڈاکیے نہیں ہوتے , اگر واقعی ایسا ہے تو سائنسدان بھی سارے ڈاکیا ہی ہوئے – مجتہد قرآن و حدیث سے مسائل کا حل بتا رہے ہیں, سائنسدان ارد گرد سے سائنسی قوانین بتا رہے ہیں, ڈاکیا کی تو کوئی اہمیت نہیں رہتی چٹھی پہنچانے کے بعد , مگر ترقی یافتہ اقوام اپنے سائنسدانوں کے مجسمے بناتی ہیں, عمارتوں کے نام رکھتی ہیں ‘ نوبل پرائز دیتی ہیں اور ان کے نام سے نئے انعامات کا آغاز کرتی ہیں- پھر ہم کیوں بے اعتنائی برتیں اپنے آئمہ مجتہدین کے ساتھ ؟ یا تو ہم خود اس قابل ہوں کہ قرآن و حدیث پر غور کر کے کسی مسئلے کا حل نکالیں اور اس پر کثیر تعداد میں مسلمانوں کو عمل کرتا ہوا دیکھیں –
موضوعات کو سمیٹنے کی طرف چلتے ہیں
کسی کو جاہل کہنا اتنا ہی غلط ہے جتنا کسی کو کافر کہنا – کافر کہنے پر بھی نفرت رد عمل ہے , جاہل کہنے پر بھی – کسی کو کافر کہنا اگر جج کرنا ہے تو جاہل کہنا بھی جج کرنا ہے – ” ہم کسی کو جج نہیں کرتے ” کا دعوٰی کرنے والے ذرا تصحیح فرما لیں
کسی کو کافر کہنا شدت پسندی ہے تو جاہل کہنا خود پسندی – اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں انسانوں کو کافر بھی کہا ہے اور جاہل بھی کہا ہے – الله رب العزت قرآن مجید میں جاہل سے دوری اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے , جبکہ نبی آخری الزماںﷺ کی زندگی میں سے اک بھی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی کو جاہل سمجھ کر سلام کر کے دوری اختیار کی ہو-
ہمارے نبی رحمت العلمین ﷺ نے نہ تو کسی کو کافر کہا نہ ہی جاہل کہا – کوڑا پھینکنے والی بڑھیا ہو یا طائف میں پتھر مارنے .والے
غیرجانبداری کا کوئی وجود نہیں ‘ تائید و تنقید و تکفیر بیک وقت ایک ہی فرد کی ہو نہیں سکتی ‘ کسی ایک کی تائید دوسرے کی تکفیر (انکار کرنا) ہو گی – ہاں تھوڑا سا فرق ہے تکفیر ہونے میں اور کرنے میں – سوشل سائٹس پر کوئی فرد واحد ایسا نہیں جو یہ دعوٰی کر سکے کہ اس نے تکفیر نہیں کی , مذہبی لوگ مشہور ہیں تکفیر کرنے میں – سیاسی مقلدین اگر اپنے اپنے سیاسی خداؤں کی پرستش کرتے ہیں تو دوسروں کے سیاسی خداؤں کی تکفیر خودبخود ہو جاتی ہے مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا , دوسروں کے سیاسی خداؤں کی تکفیر کرنے میں بھی کوئی بھی پیچھے نہیں رہا , اس علم غیب سے قطع نظر کہ ” ہم اسی سیاسی خدا کی تکفیر کر رہے ہیں جس کو ہم نے ووٹ دیا تھا ” کس نے کس کو ووٹ دیا صرف رب جانے –
‘ سیاسی خدا ‘ یہ اصطلاح ‘ سیاسی مقلدین کو آپس میں ایک دوسرے کی انتہا درجے کی تکفیر کرتا دیکھ کر وجود میں آئی – اگر دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا کہنا ٹھیک نہیں تو دوسروں کے سیاسی خداؤں کو برا بھلا کہنا کتنے درجے کی نیکی ہے ؟
چاہے طنز ہو ,تمسخر , ٹھٹھا , اتہام , الزام , دشنام , ذات پر بات وغیرہ وغیرہ , سب تکفیر کے زمرے میں آتے ہیں –
یعنی اجتماعی طور پر ہم اک ناکارہ قوم ہیں . مذہبی , سیاسی , سماجی طور پر ناکارہ افراد – اس لفظ ‘ ناکارہ ‘ کو دنیا کی کئی اقوام سے تقابل کر کے دیکھیں, چھوٹی سی مثال
جنگ عظیم دوئم میں حصہ لینے والی اقوام کے سائنسدانوں کا دعوٰی ہے کہ سب سے زیادہ ایجادات ان چھ یا سات سالوں میں کی گئیں , یعنی حالت جنگ میں سائنسدان ایجادات کر رہے تھے – پاکستان حالت جنگ میں ہے تو یہاں کتنی ایجادات کی گئی ہیں ؟ نام لئے بغیر پاکستان کے مشہور سائنسدانوں , انجینئرز ‘, ڈاکٹرز , ریسرچرز نے ڈاکٹر عبد السلام سے پہلے اور بعد میں کتنے نوبل پرائز حاصل کر لئے ؟ کیا لاکھوں کروڑوں کمانے والے سائنسدانوں , انجینئرز , ڈاکٹرز , ریسرچرز کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ؟ کون سی طاقت ہے جس نے پیسہ بنوا دیا مگر ایجاد کرنا پاپ قرار دلوا دیا ؟
کسی جگہ پڑھا تھا ” کام کرنیوالے کے پاس تنقید کرنے کا وقت نہیں ہوتا ” مگر ناکارہ قوم کا ہر فرد چاہے کروڑوں کا مالک ہو یا کوڑیوں کا , تنقید کرتا ہے – مذہبی , سیاسی , سماجی ہر قسم کی تنقید ؛ علما پر , حکمرانوں پر , مخالف سیاسی خداؤں پر ‘, اداروں پر , شخصیات پر – اچھے خاصے پڑھے لکھے انجینئر , ڈاکٹر , بینکر , سوشلسٹ , بزنس کے مالکان , آرٹسٹس وغیرہ کسی نا کسی کا تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں , طنز کر رہے ہوتے ہیں , تکفیر کر رہے ہوتے ہیں – جب تھک جاتے ہیں تو روزی روٹی کی فکر میں مشغول ہو جاتے ہیں اوراس طرح یہ چکر جاری و .ساری ہے
نہ کچھ ایجاد ہوتا ہے , نہ اجتہاد ہوتا ہے ہم سے , نہ سیاست ہوتی ہے اور چلے ہیں ذاتی ترقی کرنے , دوسروں پر ہمہ وقت تنقید کر کے , تکفیر کر کے اور کچھ کی خوشامد کر کے ‘ انہی روایتی طریقوں سے پیسہ کماتے ہوئے ‘ غیرجانبداری اور آزادی کا جھوٹا اور مضحکہ خیز نعرہ لگاتے ہوئے کون سی ذاتی ترقی ہو رہی ہے؟
” افسوس ہمدردی کے قابل بھی ہم نہ رہے “