تھر۔۔۔ سندھ کا بے آب و گل وہ علاقہ جس کی وجہ شہرت کوئلے کے بیش بہا خزانوں ، سطح پر کھڑی گرینائٹ کی پہاڑیوں اور چائنا کلے کے ذخائرکے برعکس قحط، بھوک سے بلکتے دم توڑتے بچے اور بیمار جانور ہیں۔ اس علاقے کا نوحہ کناں آج کل ہر کوئی ہے۔ آئے دن سرخیوں میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی ہلاکت کی خبریں قارئین کو خون کے آنسو رلاتی ہیں تو خبرنامے میں بھوکے پیاسے لوگوں کی ناامید آنکھیں بھی ناظرین روزمرہ کی بنیاد پر دیکھتے اور افسوس کرتے ہیں۔بلاشبہ اس خشک علاقے کے باسیوں کے لیے زندگی ایک ریگزار کی مانند ہے ۔ پانی کے لیے کوسوں کا فاصلہ طے کرنے والی خواتین کی ہمت کو داد دی جائے یا حکومت وقت کی تھر کے حالات پر غیر سنجیدگی کو دیکھا جائے سوائے دکھ کے اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور تھرباسیوں کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے ۔ باران رحمت سے محروم رہنے والی تھر کی زمین پر بسنے والے افراد طویل، کٹھن راستہ طے کرکے بھی کڑوے ناقابل استعمال پانی کے استعمال پر مجبور تھے اور اسی وجہ سے بےشمار بیماریوں کے نرغے میں بھی تھے لیکن گذشتہ برس کے اوائل میں لگنے والے آر او پلانٹس نے تھر واسیوں کی اس مشکل کو آسان کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اب تھر ی باشندوں کے لیے پینے کے پانی کا بڑا ذریعہ یہی آر او پلانٹس بن گئےہیں۔ ریورس اوسموسس کی تکنیک کا استعمال کرکے زمین سے نکلنے والے کھارے اور ناقابل استعمال پانی کو پینےکے صاف پانی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یہ پلانٹس شمسی توانائی پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ تھر پارکر میں موجود ان پلانٹس کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں میں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مٹھی کے مقام پر ایشیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی سے چلنے والا پاور پلانٹ بھی موجود ہے۔ جس سے روزانہ بیس لاکھ گیلن صاف پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ماہرین کے مطابق آر او پلانٹس سے صاف کیا گیا پانی افادیت کے لحاظ سے منرل واٹر جیسا ہے۔مٹھی میں رہنے والے افراد کی روزمرہ پانی کی ضرورت تقریباً آٹھ لاکھ گیلن پانی ہے لہذا مٹھی کے ساتھ ساتھ اسلام کوٹ کے کئی دیہاتوں کو بھی پانی مٹھی کے پلانٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔
تھر کی حالت زار پر روزانہ کی بنیاد پر خبریں نشر ہونے کے بعد بھی حکومت کی تھر کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی مشکل سے ہی نظر آتی ہے۔ تھر کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے والے ان پلانٹس کے ٹھیکے داروں کے ساتھ حکومت سندھ کا آپریشن اینڈ مینٹی ننس کا معاہدہ جون 2015میں ختم ہوچکا ہے اور اس کے بعد سےحکومت نے ان پلانٹس کے ذریعے تھرباسیوں کو پانی کی فراہمی کا انتظام سنبھالنے کے ضمن میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس وقت ان پلانٹس کو موجودہ ٹھیکے داراپنے وسائل سے چلارہے ہیں۔آر او پلانٹس سے حاصل ہونے والا پانی نہ صرف بہت کم لاگت پر حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ پانی افادیت کے لحاظ سے بھی تھر کے افراد کے لیے محفوظ اورموضوع ہے نہ صرف یہ بلکہ اس پانی کو استعمال کرکے اسلام کوٹ کے کئی مقامات پر سبزیوں اور پھل کی کاشت بھی کی گئی ہے ۔
تھرمیں بسنے والے افراد میں ہندو اور مسلمان گھرانوں کی تعداد تقریباًٍ برابر ہے اور ان کے درمیان محبت بین المذاہب اتحاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سادہ سی زندگی گزارنے والے تھری باشندوں کی خواتین تو پانی لانے سے لے کر امور خانہ داری میں خوب مصروف نظر آتی ہیں لیکن بیشتر مرد کام کاج سے فارغ دکھائی دیتے ہیں۔ علاقے میں جاری مختلف پراجیکٹس میں بھی دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی تعداد مقامی افراد سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔تھر کے بچوں کے لیے تعلیم اور صحت دونوں ہی شعبوں میں نظراندازی پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔خشک ریت میں کھیلتے بچوں کی آنکھوں میں تو چمک دکھائی دیتی ہے لیکن ان کے مستقبل تاریکی میں ڈوبے محسوس ہوتے ہیں۔ابر اگر تھر کے مکینوں سے روٹھا رہتا ہے تو سال بھر چمکنے والے سورج کا فائد ہ اٹھا کرتھر کا کل تابناک بنایا جاسکتا ہے۔شمسی توانائی سے چلنے والے آر او پلانٹس اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پلانٹس کا فائدہ درست طریقے سے اٹھایا جائے اور حکومت تھر کے گاؤں گوٹھوں کی مکمل ضروریات کا اندازہ لگا کر ان پلانٹس کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائے۔