Disclaimer: The views expressed by the writer and the reader comments do not necessarily reflect the views and policies of the PakistanKaKhudaHafiz.
ادیبوں دانشوروں صحافیوں استادوں اور دوستوں سے معذرت کے ساتھ ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بول پاکستانی میڈیا کی تاریخ کا سب سے بڑا نیوز نیٹ ورک تھا، یہاں معیاری اخبار ، میگزین ، مختلف زبانوں سمیت نیوز انٹرٹینمنٹ ، فلم کھیل اور بزنس کے چینلز بیک وقت حاضر ہونے تھے ۔صرف یہی نہیں اس کے ساتھ مزید 4بڑے معاہدے تھے جو بول کی بندش کی وجہ بنےاور ساتھ فی الحال خود بھی بندش کی زد میں ہے۔ پہلا بڑا معاہدہ جن میں گوگل کی جگہ بول والا نے لینی تھی جس میں ہر جگہ کی تازہ تصاویر، میپ ، ویڈیو کلپس پورے پاکستان کا سب ڈیٹا رکھا جاتا ۔ گوگل پاکستان معاہدہ 2018 میں ختم ہونا تھا کیونکہ پاکستان میں انٹرنیٹ سرور کی تمام چیزوں تک رسائی گوگل کی مہربانی سے ہے جوکہ ایک انڈین ٹھیکہ ہے اور یہ بہت اچھا اقدام تھاجو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خاصے کام آتا۔۔ دوسرامعاہدہ تعلیم کے میدان میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اس کی سمری یو این او اور اے ایم آئی سے تصدیق ہوتے ہوئے پاکستان آئی اور سب متفق تھے جس کی مد میں سالانہ 10ارب روپےتعلیم کے لیے پاکستان آتے اور ایک کروڑ سے زائد بچے تعلیم یافتہ بننے تھے ۔ تیسرا معاہدہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہے ۔آئی ٹی سیکٹر میں رینڈر ھاؤس بنانے والا پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہوتا جہاں فلمیں رینڈر ہوتیں، ساتھ کارٹون ، گرافکس، مایا میکس ، آرکیٹیکچر اور ویبزکے بے شمار پروجیکٹس تیار ہوتے جس سے سالانہ کم ازکم 10کروڑ ڈالر کی کثیر رقم کمائی جا سکتی تھی ۔چوتھا معاہدہ ان سب سے بڑھ کے تھا پاک سیٹلائٹ سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کا جو کہ اگر کچھ دوست واقف ہوں تو آپ کی بجلی کے بل میں 35 روپے ماہانہ اس کی فیس ہر گھر ادا کرتا ہے۔جس کے لیے ہمارے دوشمن ممالک دن رات کوشش میں ہیں کہ ایک بار پاک سیٹلائٹ سے رابطہ منقطع ہو تو اپنا ایٹمی طاقت بھی بھول جائیں پھر تو، یہ بات حقیقت ہے کہ ان سب پروجیکٹس سے بول کو اربوں کا۔ فائدہ ہونا تھا ۔لیکن پاکستان کے لیے بھی بڑی تبدیلی تھی ۔
اب آجائیں کہ یہ سب ایک ٹی وی چینل کھولنے والا کیسے سوچ سکتا ہے پچھلے 9سالوں کی سوچ یہ کسی آدمی کی نہیں تھی بلکہ دن رات کام، کرنے والے 11730لوگوں کی ٹیم جو مختلف شعبوں سے وابستہ تھی اور مل کران پانچ پروگرامز پر دن رات کام کر رہے تھے ۔یہ بات بھی سوچنے والی ہے کہ ان 5 پروجکٹس کا آپس میں کیا ملاپ ہے؟ تو سمجنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کہیں نہ کہیں آپس میں جوڑے گئے ہیں اور عجب اتفاق کہا جائے یا سازش لیکن پیسے لگانے والے بھی اپنے دائر ے سے باہر نہیں گئے۔اب سوچیں جیسے کہ گوگل کی جگہ بول والا تھے جو تصویریں، ویڈیو کلپ اور ایڈرس شامل ہونے تھے سب یہیں سے لیتے۔ دوسرا کام تعلیم کے لیے ملنے والی رقوم جس کو ایگزیٹ کے تحت لایا جانا تھا۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی ڈگری جعلی ہوتی ہے یا اصلی لیکن پورا انفرااسٹرکچر ایگزیکٹین کے سپرد تھا۔ اس طرح آئی ٹی کو بھی ایگزیٹ سے جوڑا گیا جو اس کا پرانا دھندا بتایا جاتاہے، سیٹلائٹ سسٹم سے بول کو دو فائدے تھے ایک فری کیبل سروس لیتا ۔فریکوئنسی فری ہوتی ، پاک سیٹ پر گوگل کی جگہ بول والاز تھا جو معاہدے سرور کے گوگل سے ہوتے ہیں سب انکے پاس آتے اور ساتھ مکمل پاکستان سے گزرنے والے تمام سیٹلائٹ لائن کی نگرانی ہوتی اور دنیابھر کے کئی ترقی پذیر ممالک ایسا کرتے ہیں جن میں ہندوستان بھی شامل ہے، جو انڈین چینلز ہم دن رات فری دیکھتےہیں وہ ایسے ہی تو ڈراپ کرتے ہیں اور اب تو ایکسپریس گروپ کا بھی ان سے معاہدہ طے ہوا ہے۔ اگر کچھ دوست واقفیت رکھتے ہوں تو روس کی یہ سب چیزیں اپنی ہیں ۔
ایک طرف ظہیر الاسلام کی غلطی کہ اس نے سارے اختیارات غلط استعمال کئے تو دوسری طرف ایگزیکٹ میں ایک ڈائریکٹر خاتون نے اپنے ساتھ ہو نے والی ہونے گھریلو ناچاقی کا سہارا لےکر عزیزالاسلام کے سارے پول کھولے۔ یہ خاتون لندن منتقل ہو چکی جہاں اسے 87ہزار پاؤنڈ کا ایک فلیٹ ملا ہے۔
واپس آتا ہوں مدعے کی طرف ۔ یہاں یہ بات بتانی بھی ضروری ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کام اور اس کے لیے پیسے کہاں سےآئے ۔کئی لوگ تو ملک ریاض ، کئی داؤد ابراہیم، کئی اے کے ڈِیڈی اور دیگر کئی کے نام لے رہے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ۔ میری ناقص معلومات، سرکاری تحویلی کاغذات اور اصل مالکوں سے ملاقات میں 27 ارب ڈالر کی رقم ان کاموں کے لیے مختص کرنے والے دُبئی کے 3 بڑے شیخ ہیں۔انہیں کیا فائدہ تھا اور وہ چپ کےسے پاکستان میں اتنے بڑے معاہدے کیوں کر رہے تھے؟ اگر ان سوالوں کے جواب ملتے تو شاہد ایک بھی پروجیکٹ ملتوی نہیں ہوتا۔ ان میں سےایک شیخ کا اہم کارندہ ایجنسیوں کی تحقیقاتی کمیٹی کے تحویل میں ہے جو پاکستان میں ایک بنک اور ایک ٹیلی کام کمپنی کا ڈائریکٹر بھی ہے ،اس نے 9 ارب ڈالر کی امداد کی تصدیق بھی کر دی ہے ۔لیکن یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ وہ ایسے اقدامات کیوں کر رہے تھے؟ اب اس بات کی تصدیق ہونا باقی ہے کہ دُبئی حکومت اس موقع پر ساتھ تھی یا نہیں؟ یا یہ کسی اور ملک کی سوچ ؟لیکن پریشانی ہاں پیدا ہوئی ۔بول کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ بنی کہ انہی پیسوں میں سے 1ارب ڈالر قادری اور عمران خان دھرنوں میں خرچ ہورے تھے ۔اور ائی بی کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ظہیر الاسلام اپنے 16 ساتھیوں سمیت ملک پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ کیا یہ بھی اس پروگرام کا حصہ تھا؟ موجودہ حکومت اور حاضر سیٹ اپ نے پلان کو بہت سنجیدہ لیا اور دن رات کھوج لگانے لگے ۔ تمام معاملات کے بعد موجودہ سیٹ اپ نے متنازعہ سمجھ کر تمام معاہدے فوری طور پر روکنے کے لیے اقدامات کیےلیکن ان سب سے بڑھ کر تمام معاملات کو دیکھنے والا ظہیر الاسلام کا بیٹا عزیز اسلام تھا جوکہ پانچوں پروجیکٹس کا اصل مالک ہے، لیکن قانوناً سب کچھ شعیب شیخ کے نام رجسٹر کرکےانھیں احتساب کے لئے پیش کیا گیا جوکہ اب تک غیر قانونی تحویل میں ہیں، ایک طرف ظہیر الاسلام کی غلطی کہ اس نے سارے اختیارات غلط استعمال کئے تو دوسری طرف ایگزیکٹ میں ایک ڈائریکٹر خاتون نے اپنے ساتھ ہو نے والی ہونے گھریلو ناچاقی کا سہارا لےکر عزیزالاسلام کے سارے پول کھولے۔ یہ خاتون لندن منتقل ہو چکی جہاں اسے 87ہزار پاؤنڈ کا ایک فلیٹ ملا ہے۔
ساتھیوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تنخواہیں 5ماہ کی رُکی ہوں اور 23 اہم عہدیدار دنیابھر کی مہنگی سیر و تفریح پر ہوں تو بات واضح طور پر سا منے آجائے گی ۔لیکن صرف یہی نہیں بول کی خبروں کے لیے پاکستان سے لندن تک 6 بڑے چینلز اور 3 اخباروں کو 19 لاکھ پاؤنڈ ملے یہ رقم بھی کسی نے خرچ کی ہوگی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کس نے کیا اور اگر اس میں اتنے سارے فائدے تھے اور اربوں روپے پاکستان آرہے تھے تو اسے کیو ں بند کرایا کیا گیا؟ کس کی طرف سے بند ہوا سب؟ کیا دبئی حکومت پاکستانی سیٹلائٹ پر قابض ہو رہی تھی جس کے لیے اسنے اتنی بڑی رقم خرچ کی یا کسی اور کی اتنی گہری نظر؟ ثانی معاملات یہاں ایک طرف ، اس بارے میں فی الحال کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگ سکے اب تک ۔۔۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی صرف بول کو الگ کر کے بھی چلایا جا سکتا تھا ۔لیکن بول کو بولنے سے روکنے کے لے پوری ایمانداری کے ساتھ اقدامات کئے گئے۔ ذرا دماغ پر وزن بڑھا کر سوچا جائے تو کئی چہرے سامنے آ سکتے ہیں۔ بول کے کیس والے دنوں کامران خان کہاں تھے؟ یہاں ساتھیوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تنخواہیں 5ماہ کی رُکی ہوں اور 23 اہم عہدیدار دنیابھر کی مہنگی سیر و تفریح پر ہوں تو بات واضح طور پر سا منے آجائے گی ۔لیکن صرف یہی نہیں بول کی خبروں کے لیے پاکستان سے لندن تک 6 بڑے چینلز اور 3 اخباروں کو 19 لاکھ پاؤنڈ ملے یہ رقم بھی کسی نے خرچ کی ہوگی۔سیدھی بات یہ کہ موجودہ حکومت بھی صورتحال سے نمٹنے میں پیش پیش رہی ۔بول کے اقدامات کے وقت سب مذاق سمجھتے رہے ۔جس وقت اظہر عباس نے سیٹ اپ چلانے کا فیصلہ کیا شعیب شیخ بضد کیوں ہوئے ہوسکتا ہے کہ اظہر عباس کی بات اس وقت بھی مان لی جاتی لیکن اس وقت تک اصل مالک سامنے آنے سے کتراتے رہے جب حالات اس قدر پیچیدہ ہوئے کہ تیل کےپیسے بھی رُک گئے تو تب اس نے ہاتھ آگے کیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ۔جب کسی فورم پر شنوائی نہیں ہوئی تو اختیارات سلمان اقبال کے سپرد کیے گئے وہ آن ائیر آف ائیربہت بھاگے دوڑے لیکن موجودہ سیٹ اپ کچھ سننے کو تیار نہیں اور سلمان اقبال بضد ہوئے تو لکس اسٹائل ایوارڈ کا ہاتھ لگا پروجیکٹ بھی واپس ہوا ۔ جس آدمی نے سلمان کے ہاتھ میں 50 کروڑ رکھے تھے وہ پرامید تھا لیکن ‘گئی بھنس پانی میں’ والا حساب رہا ۔جب یہاں کچھ نہیں بنا تو مالک نے جیو کے گروپ مالک سے دبئی میں ملاقات کی وہ ان پروجیکٹس کو ا ٹھانا بھی چاہتے ہیں لیکن فی الحال انکے بھی این او سی کی کوئی امید نہیں ۔اب جب وہاں سے بھی ٹھوس جواب نہ ملا تو ملک ریاض کی باری آئی لیکن اس نے صرف سامان پر استفادہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اب رہے غریب و لاچار مزدور ۔۔دشمن غدار رہنما ہو تو رونے کی ضرورت نہیں انہیں۔ سنا ہے درد اس انگلی میں ہوتا ہے جہاں چوٹ لگی ہو، باقی ہاتھ تو مہندی کے مزے لیتے ہیں ۔۔۔۔بہت دیر ہو چکی اب اگلی تحریر میں یہ بتاؤں گا کہ بول کب اور کون آن ائیر کر رہا ہے؟ کوئی غلطی یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت ۔۔۔۔۔۔۔ہاں بول بولے گا ضرور۔۔بس بہت کم دن انتظار کے ہیں
I’ll be following this topic. Please update