آج سے……..پچاس برس پہلے……آج……اپنی امید کی انتہاء پر… اپنے وقت کے اختتام پر…..اگر یاد ہو تو … چُنا تھا ہم نے…. یقین کرنا، نہ صرف اپنے آپ بلکہ ایک دوسرے پر…..پچاس برس پہلے………آج ہی کے دن….کوئی ذی روح اکیلا نہیں کھڑا تھا……..پچاس برس پہلے…….آج ہی کے دن ہم نے سامنا کیا تھا اختتام کے منصوبے سے لیس ایک حملہ آور عفریت کا اور لے گئے تھے لڑائی اس کے گھر..اگر یاد ہو تو…آج……..پچاس برس پہلے آج ہی کے دن ہم نے منسوخ کیا تھا اختتام کو۔
جو افراد اس مضمون سے کسی منظقی نکتے کی برآمدگی کی امید لگائے ہوئے ہیں ان سے معذرت کہ یہ ایک سراسر جذباتی تحریربلکہ خود کلامی ہے جو پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ لُٹانے والوں کی خدمت میں ایک حقیر سا خراجِ تحسین ہے ،سو براہِ کرم اپنا قیمتی وقت بچائیں اور اپنا کوئی دل پسند کوئی دل چسپ موضوع چُنیں اور اسے وقت دیں – جس دن آپ محسوس کریں کہ اپنے سے کئی گُنا بڑے دشمن کے حملے کو پچھاڑنے کی کیفیت کیا ہوتی ہے اور آپ کے دل میں ان لوگوں کے لیے شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں جنہوں نے اس جارحیت کی آگ کو اپنے لہو سے بُجھایا تو آپ ضرور اس تحریراور اس طرح کی کئی دوسری تحاریر سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
آج پاکستان میں اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے خلاف جاری بقا کی اس جنگ کے تناظر میں 6 ستمبر انیس 1965ء محض ایک دن یا تاریخ نہیں بلکہ ایک بیانیہ ہے- ستمبر انیس سو پینسٹھ پاکستان کی تاریخ میں عزم و دلیری، وطن و نظریے کی حفاظت کےلیے کسی بھی قوت سے ٹکرا جانے کی اس روح کی یاد دلاتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کی جوہری اساس قائم ہے -یقیناً آج کے دن کے حوالے سے ان گنت واقعات مختلف زاویوں سے کئی منفرد اندازوں میں بیان اور تحریر کیے جائیں گے- کچھ جنگِ ستمبر کے تکنیکی پہلوؤں کو زیر بحث لائیں گے اور کچھ تعصب کے اوزار سے اسکے محرکات کی گہرائی ناپیں گے لیکن تاریخ دان اس دن کو تاریخ کے اوراق میں ایک ایسی گواہی کے طور پر درج کرے گا کہ جس دن ایک قوم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے جارحیت پر مبنی بالادستی کے عزائم کو جنگ کے میدان میں خاک میں ملا کر لاہور جم خانہ میں دادِعیش کی اس کی خواہش کوحسرت میں بدل دیا- خیر یہ تو ایک جملہ متعرضہ ہے جو کچھ “دوستوں” کی افتاد طبع کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئےشامل مضمون کیاگیاہے،سو وہ پڑھیں سر دھنیں/پٹخیں اور حسب توفیق و روایت داد ودشنام سے نوازیں- چشم ما روشن دل ماشاد-
ذرا غور کیا جائے تو مملکت خداداد کے حالات سنہ 65ء سے کچھ زیادہ مختلف نہیں-ریاستی امور میں مسلسل نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کر کے سیاسی قوتیں اپنے آپ کو بتدریج قومی تنہائی کا شکار کرنے کے بعد اب اپنے آپ کو دیوار سے لگانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں- مالی بدعنوانی, اخلاقی پستی اور ڈھٹائی کی مٹی سے گُندھے کچھ سیاسی عناصر لوٹ کھسوٹ کی دیوانگی میں مبتلا ہو کر ریاست کے وجود تک کو داؤ پر لگانے پر آمادہ ہیں- جب ایک طرف دشمن سرحد اور شہروں میں معصوم پاکستانیوں کے خون سے کھیل رہا ہے اور خطے میں ایک امکانی جنگ کی دھمکیوں کی سنگینی کو بھانپ کر بین الاقوامی برداری میں اضطراب کی لہر دوڑی ہوئی ہےاور دوسری طرف جب ملک کے کچھ علاقوں میں لوگ قحط اور کچھ علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں تو ملک کے جملہ سیاست دان اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کی راہوں کی تلاش میں قوم کو الجھن کا شکار اور اپنے سیاسی کارکنان کو خوار کرا رہے ہیں- کسی کا مسئلہ حکومت حاصل کرنا ہے تو کسی کا اسے قائم رکھنا ہے- کوئی اپنی ماضی کی بھیانک سیاہ کاریوں کی ذمہ داری سے انکاری ہے تو کوئی اس کا ڈھٹائی سے اعتراف کر کے اس کے احتساب پر “اینٹ سے اینٹ بجانے” کی دھمکیوں پر اتر آیا ہے- ایسے میں عساکرِ پاکستان کی قربانیوں کے نتیجے میں بتدریج بہتری کی طرف گامزن حالات نے افواج پاکستان کے لیے عوام کے دل میں جو عزت و محبت کی لہر پیدا کی ہوئی ہے اس کی بنیادیں بہت گہری ہیں۔
بعض اوقات ان وردی والوں پر نہایت تعجب ہوتا ہے کہ ان کا خمیر کس مٹی سے اٹھا ہے- یہ اس ملک کے دفاع کے ذمہ دار ہیں جو اپنے وجود کے پہلے دن سے مسلسل جاری ایک بقا کی جنگ لڑرہا ہے ایک ایسی ریاست جو اپنے قیام کے دن سے ایک ایسے ازلی دشمن سے نبرد آزما ہے جس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہی اپنے پڑوسی ملک کی مکمل تباہی ہے اور اسکے حصول کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو آمادہ اسکے سیاسی رہنماء اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ستر سال سے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں- ان غیردوستانہ عوامل کی موجودگی میں دفاع وطن کا فرض محض پیشہ وارانہ ذمہ داری نہیں بلکہ ایک جان توڑ جہدِ مسلسل بن جاتا ہےجو آگ برساتے ریگزاروں اور رگوں میں لہو کو جمادینے والے پہاڑوں پر شب سے سحر تک کھڑے رہنے والے سپاہی کے عزم کو ہر گزرتے لمحے آزماتا ہے-لیکن آفرین ہے ان ماؤں پر جنہوں نے یہ صحراؤں کو جھسلانے اور کہساروں کو روندنے والے جوان جنے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ یہ بات کافی مضحکہ خیز ہے کی ماضی میں بڑی اور اپنے پسند کے محاذ پرجنگ کی دھمکی دینے والے ٹٹ پونجیئے اب مختصرجنگ کی منمناہٹ پر اتر آئے ہیں- گھر میں گھس کے مارنے کے دعوے کرنے والوں کو سن پینسٹھ میں گھر میں گھسنا اور مار کھانا یاد رکھنا چاہیے- لاہور کینٹ کو ہدف بتانے والوں کو راجھستان بچانے کے لالے پڑ گئے تھے- اب کراچی, فاٹا اور بلوچستان میں یہی حال اسکے زرخرید کرائے کے قاتلوں کا ہورہا ہے- تاریخ کا ایک نیا ورق پلٹنے کو ہے-اپنے ماضی پر فخر کرتا اس میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھتا ایک مضبوط تر پاکستان خطے میں سر اٹھا رہا ہے – امن کا داعی لیکن جنگ کے کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کا مکمل متحمل، ایک ایسا ملک جو علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں اپنے مفادات کا جارحانہ انداز میں تحفظ کرنا جانتا ہے- انشاء اللّٰہ اب پاکستان کے عروج کے سفر کی شروعات ہے- اللّٰہ کے نام پر قائم اس ملک اور شہیدوں کے خون سے سینچی گئی یہ زمین کہ ہادئ برحق صلی للّٰہ علیہ وسلم کو جس سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی اپنی کہانی کی معراج پر پہنچے گی بہت جلد مراکش سے لے کر کاشغر تک مظلوموں کی داد رسی کا مرکزبنے گی –
ان سب معاملات سے قبل کچھ تفصیلات کا طے ہونا باقی ہے- ان مقامات تک پہنچنے سے پہلے پڑوس میں بسےکج روی کے پروردہ ایک دشمن کو ٹھکانے پر رکھنا حالت کا تقاضہ ہے- وہی دشمن جس نے پچاس سال پہلے شب خون مارا تھا، آج بھی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان کے طول و عرض میں ایک غیراعلانیہ جنگ چھیڑکر بیٹھا ہو ا ہے جس کی آگ ہمارے ستر ہزار پیارے نگل چکی ہے ، جانے کتنے ہی مسکراتے چہروں کو مٹی اوڑھا گئی – شہداء کے گلدستے میں جو گلاب ہیں ان کے ذکرکا ایک ایک لمحہ قرض ہے – انکی یاد کی ہر ایک گھڑی ایک عذاب ہے- یہ جو گھاؤدشمن نے لگائے ہیں انکا کوئی مداوا نہیں-انکا کوئی انتقام بھی نہیں – گو کہ عقلیت کا تقاضہ یہ ہے کہ بدترین صورتحال میں بھی منطقی سوچ کا دامن نہ چھوڑا جائے لیکن بعض انتہائی حالات میں منطق ناکافی ہوتی ہے اسکی ناکافیت کے توازن کے حصول کے لیے بعض اوقات عقلی حدود پار کرنا پڑتی ہے- یہ درست ہے کہ بدلہ کی خواہش کوئی عالی رویہ نہیں یہ محض ایک جذباتی ردعمل ہے ،نہیں محض بدلہ نہیں، بعض انتہائی حالات میں انتقام لینا نہیں بلکہ سزا دینا اصل توازن ہوتا ہے – تو ایک بار پھر پچاس برس بعد , اپنی امید کی انتہاء پر, اپنے وقت کے اختتام پر ہم نے آج پھر چُنا ہے یقین کرنا , نہ صرف اپنے آپ بلکہ ایک دوسرے پر, پچاس برس بعد ان ماؤں کے بھیگے آنچلوں کی ندرت کے طفیل آج پھر کوئی ذی روح اکیلا نہیں کھڑا, پچاس برس بعد آج پھرہم سامنا کرہے ہیں اپنے اختتام کے منصوبے سے لیس اسی حملہ آور عفریت کا ،پر یہ لڑائی بھی جائے گی اسکے اپنے گھر کہ آج پچاس برس بعد ایک بار پھر ہم تیار ہیں منسوخ کرنے اختتام کو..
اب کے جو بھڑکی آگ دل کےاندر…….. راکھ کردے گی ہردشمن منظر۔
The 1965 War between India and Pakistan serves as a refresher that Pakistani nation was able to defend its territorial sovereignty and freedom against the aggression by a 5 times bigger enemy. That feat was achieved when this nation, still nascent by then, got united solidly and determined resolutely. The enemy chose to cowardly attack us at our international border in the dark of night with plans to capture Lahore by the end of the day and then celebrate their ‘victory’ at the Lahore Gym Club. But the brave sons of this soil blunted the enemy attack and did not allow it to advance merely 13 miles to Lahore in the subsequent 17 days of war. More than that, the cowardly enemy was not even able to breach Pak defenses at the strategic but vulnerable places such as Rahim Yar Khan. The shaheens of PAF hunted down Indian planes like an experienced hunter would do to hapless sparrows. Prior to the formal Indian attack on Lahore, Pak military had already hammered the slumdog asses in Runn of Kutch by inflicting heavy losses to the enemy. Towards the end of war, Indians desperately approached the UNO with requests of a ceasefire. Indian PM suffered a heart attack in the same night that the ceasefire agreement was signed in Moscow. In a strange move, slumdogs are celebrating their ‘victory’ in this war. In a way, slumdogs are now finding some consolation and utter relief from the stress of September war 50 years after their PM did who found it right after signing the ceasefire agreement. It’s not a bad progress if we go by slumdogs’ standards.