الوداع جنرل صاحب…الوداع… پاکستان کے سب سے پسندیدہ سپاہی کی سروس پوری ہوئی – نظریاتی وابستگی, تزویراتی بصیرت, عزم و حمیت ,خاندنی نجابت اورشرافت وشائستگی ایک عہد تمام ہوا – ہم “غیرت بریگیڈ” والے اپنے غیور ترین کماندار سے محروم ہوئے- یہ ہی دستور ہے- تغیر افراد کو ہے زمانے کو نہیں- جنرل حمید گل کی ذات پر اب انکے انتقال کے بعد ہر طرح کے تبصرے, تجزیے قصیدے اور بعض عناصرکی جانب سے تبرے تک بیھجے جائیں گے- طالبان کا گاڈ فادر, جمہوریت کا دشمن, آئی-جے-آئی کا خالق اور اس ہی طرح کے کئی اور القاب استعمال کیے جائیں گے- جب کہ حقیقت میں وہ صرف ملک کا درد اور دین کی محبت رکھنے والے پاکستان اور اسلام کے سچے خیرخواہ کے طور پر جانے اور یاد کیے جائیں گے-
انسان کی ذات خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے – مکمل تو صرف ذات خدا باری تعالٰی ہے کہ جس کے قبضے میں سب کی جان ہے – لیکن کسی بھی شخصیت کا تجزیہ کرنے والے بعض اوقات محض اپنے نظریاتی نکتہ نظر کے اسیر ہو کر صرف خوبیوں یا خامیوں کو موضوع بحث بنا کراور غیر متوازان رجحان کے تابع ہو کر شخصیاتی تجزیے کا عمومی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اکثر اوقات انتہائی غیر سودمند ثابت ہوتا ہے – بعض معاملات میں مرحوم جنرل صاحب کے نکتۂ نظر اور طریقہ کار کی تفصیلات کے بیان پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی نیک نیتی اور معاملہ فہمی کی گہرائی سے انکار نا ممکن ہے-
عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک پیشہ ور فوجی اور بیوروکریٹ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد زیادہ تر مرکزی منظر نامے سے ذرا دور ہٹ کر اپنی ذاتی زندگی کے ان گزرے لمحات کی تلافی میں گزارتا ہے جو پیشہ وارانہ مجبوریوں کے باعث کم توجہ پاسکے ۔ یا بعض مثالیں ایسی ہیں کہ جن میں اعلٰی عہدوں سے سبکدوش عسکری وغیرعسکری افراد نسبتاً کم تغیر پذیراور کم گرم انتظامی, سیاسی یا سفارتی تقرریوں کو پسند کرکے آسان ریٹائرڈ زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں – بہت تیر مارا تو ملازمت کے دوران گزرے واقعات و حالات پر اپنا سیر حاصل تبصرہ ایک کتاب کی صورت میں شائع کروا کر اپنا نام مستند مصنفین کی فہرست میں بھی درج کروالیتے ہیں- جنرل صاحب نے ذرا مختلف راہ چنی – وہ نظریاتی عزم جو دورانِ ملازمت ان کا ہمسفر رہا سبکدوشی کے بعد بھی انہوں نے اس سے قطعِ تعلق مناسب نہیں جانا – ایک سپاہی کی کامیابیوں کی فہرست میں اگر اپنے وقت کے دوسرے بڑے فرعون کو خاک چٹوانا شامل ہو تو یہ اسکی مکمل پیشہ وارانہ تسکین کا باعث ہونا چاہیے پر جنرل صاحب کے معاملہ میں بات پیشہ وارانہ فرائض سے بڑھ کر تھی – پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں اپنی ایک عمر دینے کے بعد اسکی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اترنا اور اسکی مکمل قیمت ادا کرنا نظریاتی وابستگی کا ایک قابل فخر کارنامہ ہے جو جنرل حمید گل نے سر انجام دیا-
اسّی کے عشرے کی پاک افغان پالیسی کے معماروں میں شامل ہونے کی وجہ سے جنرل حمید گل لبرل انتہاء پسندوں کی تنقید کا نشانہ رہے ہیں- لبرل فاشسٹ نے مغرب کی اندھی تقلید میں تاریخ کے بعض بنیادی نکات کو فراموش رکھ کر دلیل کے بجائے کج بحثی کا راستہ اختیارکر تے ہوئے افغان جہاد میں آئی -ایس-آئی اور اسکے اکابرین پر تہذیب سے گرے بے جا طنز کے نشتر چلانے کا ناقابل رشک ریکارڈ جاری رکھا ہے- اپنی ایک آواز پر روس کے اٹک کے پل پر آجانے کی دھمکیاں دینے والوں کا اسی روس کو دریائےآموکے اس پار دھکیلنے والوں سے بغض قابل فہم ہے – ماسکو کی گود سے اتر کر واشنگٹن اور دہلی کی گود میں جا بیٹھنے والوں کی “نظریاتی” جدو جہد کا تفصیلی ذکر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھ کر موضوع گفتگو پر واپس آتے ہیں- اپنے نظریات پر پختہ یقین, سپاہی سے مدبر تک کا سفراور اس سفر کے دوران پیش آنے والی ذاتی مشکلات کا خندہ پیشانی اور ثابت قدمی سے سامنا کرنا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں- تاریخ کے اوراق پر بڑے بڑے زعماء اس سفر کی تکان سے ڈھیر ہوتے دکھائی دیے ہیں-
بے شک جنرل صاحب کی حکمت عملی پر نکتہ نظر کے پہلو سے انفرادی سطح پر کئی نکات پر اختلاف کیا جاسکتا ہے، روشن خیالی اور انتہاپسندی کی تقسیم کا شکار معاشرہ میں جہاں ایک جانب فرقہ پرست مولوی نے ہاہاکار مچائے رکھی اور دوسری طرف مغرب سے مرعوب مسٹر کی لن ترانیاں اپنے عروج پر رہیں ایسے وقت میں جنرل حمید گل جیسی شخصیات کی حیثیت نظریاتی الجھنوں کی کڑی دھوپ میں شجرسایہ دار کی سی رہی جس نے مولوی کی فرقہ واریت اور ملحد کی نام نہاد روشن خیالی کی قلعی کھولے رکھی اور ارد گرد پہلے مایوسی کے اتھاہ اندھیرے میں لوگوں کو تاریکی کی چادر کے اس پار موجود روشنی کے وجود کی امید دلا کر جدوجہد پر آمادہ رکھا, پاکستان کے قیام سے وابستہ رومان کی فضا کو از سر نو جھاڑ پونچھ کر قبولیت کی دہلیز پر سجائےرکھا – نتیجتاً آخری تجزیے میں ان تمام عوامل نے جنرل صاحب کو ایک سپاہی اور مدبر سے بڑھ کرایک خواب دکھانے والے کی حثیت دلاڈالی اور عذابوں کے بازار میں میں خواب بیچنے والے ہمیشہ امر رہتے ہیں۔
الوداع جنرل صاحب ……الوداع
Very nice Ahsan…keep doing the good job
Good Job