انگریزی لفظ “گہیٹو” Ghettoکا کوئی ایسا یک لفظی اردوہم معنی متبادل نہیں جو اس ایک لفظ سے وابستہ کرب تکلیف اور انسانیت سوزی کی ناقابل بیان کیفیت کا قریب ترین احاطہ کرسکے – انسانیت کے خلاف جو جرائم ان تنگ بستیوں میں کیے گئے انکی سنگینی اور بے دردی کی نوعیت سوچ سے بھی زیادہ بے – کسی گروہ کی نفرت میں کوئی قوم اجتماعی سطح پرکسطرح اسقدر دیوانگی کا شکار ہوسکتی ہےعام حالات میں یہ بات انسانی سمجھ سے بالاتر ہے- محض اس ماحول کا تصورہی ناقابل برداشت اورہذیان آمیز ہے کہ جس میں انسانوں کے گروہ در گروہ مویشیوں طرح ہانک کر ایک نشان زدہ مخصوص علاقے میں قید کرکےان پر سخت پہرہ بٹھادیا جائے اور آخری انجام سے پہلے ان سے ایسا ہراس آمیز سلوک روا رکھا جائے جیسا رویہ اور ماحول ذبیحہ سے پہلے کسی تنگ سے پنجرے میں بند اپنی باری کے منتظرجانوروں کے ساتھ قصاب اختیار کرتا ہے
ہٹلر کے بدنام زمانہ ڈاکٹرائن “یہودی مسئلہ کا آخری حل”(Final Solution to the Jewish question) کی روشنی میں نازی جرمنی میں یہودیوں کو عام آبادی سے کاٹ کر “گہیٹو” میں دھکیلنا شروع کیا گیا ایسے کئی گہیٹو نازی جرمنی کے مفتوحہ یورپی مقبوضات میں بھی قائم کیے گئے لیکن ان سب میں سب سے بدنام “گہیٹو” پولینڈ کے دارلحکومت وارسا میں قائم کیا گیا جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل کی انوکھی دردناک مثالیں قائم کی گئیں دوردرازآبادیوں سے یہودی خاندان جانوروں کے ریوڑوں کی صورت لاکر اس تنگ و تاریک بستی میں بے دردی سے ٹھونسے گئے اس دوران ان محصورلوگوں کو جیل میں رکھے گئےقیدیوں سے بھی بد ترین حالت میں رکھا گیا- زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم سردی فاقے اور نازی دہشت گردی کا شکار اس تنگ و تاریک ماحول میں جوبھوک تشدد اوربیماری کی موت سے سے بچ گئے وہ جوق در جوق ٹرینوں میں لاد کر گیس چیمبرز میں قتل ہونے کے لیے بھیج دیئے گئے
انہوں نےاپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکےاپنے ہم جنسوں اپنے پیاروں کو آہستہ آہستہ سسک سسک کر ایک کے بعد ایک مختلیف طریقوں سے اہانت, تذلیل اور شدید جسمانی اذیت کے مختلیف مراحل سے گزرکرموت کی آغوش میں جاتے دیکھا – کمزوری بے چارگی اور بے بسی کے پہاڑ تلے دبی سسکتی روحوں نے ایسے میں باربارآسمان کی طرف نظریں ٹکائے افق پر کسی قبول ہوچکی دعا, کسی عرش تک پہنچ چکی آہ کے نتیجے میں چل پڑی کسی اندیکھی غیبی امداد کے آنے کی امید لگائی ہوگی لیکن حقیقت میں کسی بھی قسم کی مدد کا کوئی امکان کسی رحمت بھرے بادل کی شکل یا کسی عصا اٹھائےموسی کی صورت نہیں آیا تب یقیناُ مایوسی کی اتھاہ تاریکیوں اور گہرائیوں میں دم گھٹتے جسموں کو موت کی خواہش اور موت ہی آخری نجات دہندہ لگنے لگی ہوگی –
اسرائیل کے قیام کے وقت اس خونچکاں داستان کے متاثرین کے وارثوں سے اس ہی طرح کے مظالم غزہ میں دہرائے جانے کی توقع کم ہی لوگوں نے کی ہوگی – فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرنے کے بعد انکو زندہ رہنے کے بنیادی حق سے محروم کر کے مشرقی یورپ سے ہجرت کر کے آنے والے یہودیوں نے نازی جرمنی ہی کے نسل پرستانہ نظریہ ہی کی بد ترین پیروی کی- جرمن قوم کی جینیاتی برتری پر مبنی معاشرتی ڈارون ازم کا نازی فلسفہ فلسطین میں اسرائیل کے بیٹوں کے مقدس سرزمین میں “واپسی کے حق” کے طور پر نافذ ہوا- جس نفاذ کے ساتھ ہی فلسطین میں عربوں کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ آج تک جاری ہےجس کی بدترین مثال غزہ میں قائم دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائیر جیل ہے- وارسا سے غزہ تک کے سفر میں فرق صرف ناموں اور کرداروں کا ہے- وارسا میں یہودی ہو نا ناقابل معافی جرم تھا اور غزہ میں فلسطینی ہونا – وارسا گہیٹو میں یہودیوں کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی- غزہ میں فلسطینی عوام کا حال اس سے زیادہ مختلف نہیں -کل کے مظلوم آج کے بدترین ظالم بن چکے ہیں
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یورپ میں یہودیوں کے خلاف اٹھی اس شدید نفرت کا سرا یورپی تاریخ کے واقعاتی جائزے سے بخوبی ملتا ہے اگر اولین عیسائیت کے ماخذ میں یہودیوں کے لیے موجود ناپسندیدگی کے پس منظرکو ذہن میں رکھا جائےاوراس بات پر غورکیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوئل میں عالمی صیہونی تحریک کے مقاصد کےعالمی سیاست پرپوری طرح چھاجانے سے پہلے تک یورپ کی عیسائی سلطنتوں کے دور میں عمومی طور پر یہودی ہمیشہ ہی مطعون لوگ رہے ہیں- چاہے حکومت و علاقہ بازنطینی بادشاہوں کا رہا ہو یا روس کے زاروں کا, مغربی یورپ میں اٹلی اور فرانس کی کھوکھلی جمہوریتیں رہی ہوں یا برطانوی عوامی حکومتیں یا بحر اوقیانوس اس پار کم و بیش ہر مغربی روائیتی عیسائی معاشرہ میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک یہودیوں کے خلاف ایک عمومی ناپسندیدگی اور کسی حد تک نفرت کا عنصر نہایت واضح تھا- جس کی جڑیں عیسائی عقیدے کے مطابق یہودیوں کی جانب سے حضرت مسیح علیہ اسلام کومصلوب کرنے کے واقع سے ملتی ہیں
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست اور ذلت آمیزبھاری جنگی تاوان ادا کرنے کے داغ کے ساتھ ساتھ فرانس اور دیگرفاتحین کی جانب سے معاہدہ ورسیلیزمیں جرمنی پر عائد کردہ شرمناک سیاسی,عسکری اور معاشی پابندیاں اور اس تمام صورتحال میں ادا کیے گئے وال اسٹریٹ اوربینک آف انگلینڈ کے یہودی سا ہوکاروں کے کردارکی روشنی میں یہودیوں کے خلاف پہلے سے موجود اس مخالفت کی فضا کو ہٹلر اور نازی پارٹی نے بڑی آسانی سے ایک قومی تحریک میں بدل دیا-جس کا نتیجہ جرمنی میں یہودیوں کے لیے شروع ہوئے دہشت کےایک ہولناک دور کی صورت میں نکلا بےشک نازی جرمنی کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام انسانی تاریخ کا بدترین باب ہے- انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی بھی ذی شعورشخص جو واقعات کی تفصیلات کے پہلوؤں سے آگاہ ہو محض مذہبی اختلاف کی بنیاد پراسطرح کی حیوانیت کوکسی بھی انسانی گروہ کے خلاف کبھی درست قرار نہیں دے سکتا-انسان کے ہاتھوں انسان پرڈھائے گئے اس طرح کے مننظم ظلم کی مثال اتنی تفصیلات کے ساتھ جدید معلوم تاریخ میں شاذ ہیں دیکھنے کو ملتی ہے اس بات سے قطع نظر اسکی ایک وجہ اس قتل عام کے متاثرین یعنی یہودیوں کی عالمی نشریاتی بازارپر مکمل اجارہ داری بھی ہے جس کو یہودیوں نے اسرائیل کے حق میں پروپیگنڈا کے غرض سے ہمیشہ بھرپورانداذ میں استعمال کیا- گو کہ کئی اور دلچسپ سازشی نظریہ یہودیوں کے اس سیاہ قتل عام کہ اعداد و شمار اور اصل اسباب و مقاصد کی طرف کچھ سوالیہ نشان اٹھاتی ہیں مثلاُ ہولوکاسٹ سے دہائیوں پہلے پہلی جنگ عظیم کے بعد 1917 میں کیا گیا اعلان بالفورکی صورت میں عالمی صیہونی تحریک کا یہودیوں کیلیے ایک علیحدہ ریا ست کا مطالبہ, اسکے قیام کیلیے جدوجہد کا ارادہ اوربرطانوی حکومت کی اس سلسلے میں کرائی گئی یقین دیانیاں اور اس سے قبل 1903 میں منظرعام پر آئے “دی پروٹوکولز” کی اشاعت اور ان تمام واقعات کا آپس میں تعلق، اور سب سے بڑا تاریخی معمہ کہ حضرت یعقوب علیہ اسلام کے بیٹے ایشیائی سامی نسل کے یہودی کیسے وقت کے ساتھ سفید یورپی نسل سے تبدیل ہوئے لیکن بہرحال یہ ابھی موضوع بحث نہیں-
اعدادوشمار سے قطع نظر یہودیوں کا یورپ میں ہو ا دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل عام ایک سیاہ تاریخی حقیقت ہے جس کے بطن سے اسرائیل جیسی ایک اور سیاہ تر طاقت نے جنم لیا – جس نے اپنے قیام کے دن سے لےکر آج تک جبر کی طاقت سے نہ صرف علاقائی بلکہ بین القوامی امن کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے- اسرائیل کے قیام سے مشرق وسطی میں بویا گیا زہر کا بیج آج ایک تناور درخت بن کراپنے زہریلے پن سے خطے کوایک مسلسل بہتے ناسور کی شکل دےچکا ہے- یورپی یہودیوں پرگزرے ظلم کی داستان کو بنیاد بناکرصیہونی قوتوں نے اسرائیل کے قیام کو اخلاقی اور قانونی جواز دینے کی کوشش ہمیشہ سے جاری رکھی ہے جو اخلاقی اور قانونی دونوں اعتبار سے انتہائی بودی اور بے بنیاد ہے – اسرائیل میں یہودیوں کےلیے “واپسی کا حق”(Right to return) اصول کی قانون سازی اس ہی بےبنیاد, عقلی کسوٹی پر ناکام ہوتی ہٹ دھرمی اور دھونس پر مبنی پالیسی کا حصہ ہے جس کا شکارمعصوم فلسطینی عشروں سے اسرائیلی ظلم وجبر سہہ رہے ہیں- ٹھیک اس ہی طرح جیسے اسرائیلیوں
کے آباء واجداد نے نازی جرمنی کے ہاتھ سہہ تھا- عالمی دہشت گرد ریاست کے طور پر اسرائیلی جنگی جرائم کی فہرست نازی جرمنی سے کسی طرح کم نہیں – مشرق وسطی کے سینے میں خنجر کی طرح گڑی اس بددماغ بدمعاش ریاست کے عزائم ماضی کی کسی بھی توسیع پسندانہ سامراجی مذہبی جنگی جنون میں مبتلاء معاشرہ سے کسی بھی طور مختلیف نہیں – جب بھی تاریخ کا غیر جانبدار مؤرخ بیسویں صدی کے مظلوموں کا ذ کر کرے گا وارسا اور غزہ دونوں کے مظلومین اسکے صفحوں پر اپنے قاتلوں کا نام لیتے نظر آیئنگے – بن گوریان, ایرل شیرون اور نیتن یاہو اپنا نام انسانیت کے دشمنوں کی فہرست میں ایڈولف ہٹلر, جوزف گوئیبلزاور ہرمن گورینگ کے درمیان پائیں گے نازی سواستیکہ SWASTIKA اوراسرائیلی داؤدی ستارہ David Star ایک ہی سکے کے دو رخ اور رہتی دینا تک قاتلوں کے نشان کے طور پر ہم معنی سمجھے جایئں گے- مضمون کی شروعات میں انگریزی لفظ “گہیٹو” Ghetto کا کوئی یک لفظی اردوہم معنی متبادل نہیں مل رہا تھا اب آخر میں “گہیٹو” Ghetto کو غزہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لگ رہا-