ایک زمانہ تھا جب میڈیا پر اپنی سوچ کے اظہار کے لیے لوگوں کی ایک محدود تعداد کو رسائی تھی، یہ لوگ بڑے سُلجھے ہوئے انداز میں بیان آرائی کرتے تھے اور دیکھنے سُننے والے نہ صرف مبصرین کی علمیت کے قائل ہوتے تھے بلکہ اس بات پر اطمینان کا اظہار بھی کرتے تھے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود معاشرتی اقدارکو بہرحال انحطاط کے کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں۔
کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ سائنس نے نت نئی ایجادات کے جھرمٹ میں انٹرنیٹ کو جنم دیا جس نے ترقی کرتے کرتے ایک عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، سوشل میڈیا کا ایسا مربوط نظام سامنے آیا جس نے دیکھتے دیکھتے کروڑوں انسانوں کو ایک دوسرے سے منسلک کردیا، معاملات، ذاتی زندگی کے تجربات سے بیان سے آگے نکل کر مختلف النوع سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی امور پر رائے زنی تک جا پہنچے۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے افراد کو یہ احساس ہوا کہ وہ نہ صرف کسی رائے کے مالک ہیں بلکہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کیلئے ممکنہ و مطلوبہ زرائع کے استعمال پر قادر بھی ہیں۔ لمحہء انحطاط آپہنچا!
لوگوں نے بڑے شوق سے اپنے افکار کو لفظوں کے قالب میں ڈھال کردوسروں کے سامنے رکھنا شروع کیا۔ سلسلہ بڑھتا گیا اور بڑھتے بڑھتے سیاسی افکار کی تشہیر، تردید اور تحقیر کے مراحل کو جا پہنچا۔ اس نوع کی رائے زنی کی آزادی نے صدیوں کی تربیت لمحوں میں اکارت کرڈالی۔ اختلاف کرنا ایک جُرم ٹھہرا۔ سیاسی اختلافات پر دشنام طرازی ایک معمول کی بات بن گئی۔
انسان کی عظمت کے دعویدار، غریبوں کے حقوق کی پامالی پر پریشان ہونے والے تعلیم یافتہ لوگ جب اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کرمہنگے فون ہاتھوں میں پکڑے، اپنی نرم و نازک انگلیوں سے گندی گندی گالیاں لکھتے ہوں گے تو فرشتے یقیناً سوالیہ نظروں میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہوں گے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کی خلعت پر اشرف المغلظات کا لبادہ اوڑھ کر نہ جانے کیا لذت ملتی ہے؟
جب کوئی انسان کسی سیاسی خدا کی محبت میں اندھا ہوجائے تو دیدہء بینا کے ضیاع کے ساتھ ساتھ چشمِ شعور میں بھی موتیا اُتر آتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں فکر کا پنچھی اپنے تئیں کتنی ہی بلندی سے پرواز کر آئے، اُس کا منطقی ٹھکانہ الزام، دشنام، شکوک اور ڈھٹائی کے ڈھیر پر ہی رہتا ہے۔ – سوشل میڈیا پر اس نوع کی پروازیں اور ان کا منطقی قیام جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ بدکلامی نے اتنی تیزی سے دلیل کی جگہ لی ہے کہ دلیل کے ساتھ ساتھ اس کی کمی محسوس کرنے والے بھی مفتود ہوتے جارہے ہیں۔
ہم کتنے ہی بے حِس، مصروف اور کور چشم ہوجائیں ہماری تمام تر غیرتِ قومی اور حُب الوطنی، سیاسی اختلافات کی صورت میں یکلخت بیدار ہوجاتی ہے۔ غیرتِ قومی اور حُب الوطنی کا بیدار ہونا یقینی طور پر ایک قابلِ تحسین عمل ہے لیکن اس کی آڑ میں کی جانے والی بیان بازیاں اور حملہ آرائیاں بہرحال قابلِ نفرین ہیں۔ اس روِش کا نہائت تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہم نے انسانوں کو انسانی حیثیت کی بجائے ان کے سیاسی لبادوں سے جاننا، پہچاننا اور رگیدنا شروع کردیا ہے۔ (بزعمِ خود) اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجا کر بھی مخالف کارکنان کا تمام تر زور ماضی کے امور پر رہتا ہے۔ مخالف سیاست دانوں کی بہنوں، بیٹیوں کے کردار پر انگلیاں اٹھانے کو فرضِ عین سمجھ لیا گیا ہے اور اس فرض کی پُرخلوص بجا آوری میں کسی قسم کی لاپرواہی برتنے پر ہماری حُب الوطنی کو ٹھیس لگنے کا خدشہ ہے۔
سیاسی مباحث کی جزئیات کو دیکھ لیجئے، نظریے، پالیسی اور نقطہء نظر پر تبادلہء خیال کی بجائے ہمارا سارا زور اور زورِ کلام الزامات، کریدِ ماضی، ذاتیات اور فکری ٹھٹھول پر صرف ہوتا نظر آتا ہے۔ آپ کے پاس اختلاف کا مکمل حق موجود ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی کارکنان کی غالب اکثریت “لفظی مجادلوں“ میں برسرِ پیکار رہنے کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوچکی ہے اور یہ عارضہ دِن بہ دِن بگڑنے کے ساتھ ساتھ ایک غیر محسوس طریقے سے معاشرے میں بگاڑ کی نئی جہتوں کو جنم دے رہا ہے۔ اپنے اِرد گِرد نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے، کئی دوستوں نے محض سیاسی اختلافات کی بدولت واہ و رسم ترک کردی ہے۔ اگر قرابت داریاں سیاسی شناخت کے نِرغے میں آکر بقا کی جنگ لڑنا شروع کردیں تو مزید حادثوں کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
سیاسی جماعتوں کے لیے لاکھوں کارکنان کی تربیت شاید ایک نہائت مشکل کام ہے مگر ہم اپنی انفرادی حیثیت میں بھی کسی قسم کی حُدود کی پاسداری پر تیار ہوتے نظر نہیں آتے۔ یہ بے ربط فکری اژدہام حالات کے کینوس پر بڑی مایوس کُن تصویر بناتا چلا جارہا ہے۔ تصویر میں ہر رنگ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن جب تک یہ رنگ اپنی انفرادیت کو کھو کر دوسرے رنگوں میں مدغم نہیں ہوجاتے ، تصویر کے خدوخال اُبھرنے کی بجائے بِگڑتے ہی چلے جاتے ہیں، ایسے حالات میں مصوّر جتنا بھی مشّاق ہو اس کی تمام ریاضت کُھنڈت ہوکر رہ جاتی ہے۔ سیاسی کینوس پر مُوشماری کرنے والے موجودہ مصوّروں کی ریاضت اور مشّاقی کا ذکر کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کی سوچ کو دعوت دی جائے کہ آج تک انہوں نے کتنے فن پارے تخلیق کیے ہیں اور ان کی قدروقیمت کیا ہے؟
ہمارے موجودہ رویوں نے تبدیلی کو ایک خواب، نعرہ اور مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، تبدیلیاں معاشرے کی اجتماعی کوششوں سے ظہورپذیر ہوتی ہیں، اپنے گردوپیش کو سیاسی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اسے مجتمع کیجیے۔آئیے،ہم سب اس تبدیلی کی نیو اپنے اندر رکھیں اور ایک دوسرے کی رائے کو کھلے دل سے سن کراختلافی امور پر شائستگی سے گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں، یقین مانئے، تبدیلی آپ کو خود بخود محسوس ہوگی
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو
دراصل شہرت ‘ نمبر آف فولوورز ‘ نمبر آف ریٹویٹس کے لالچ نے چھوٹے ناموں کو بڑا کیا ‘ بڑے ناموں کو لے ڈوبا اور غیر جانبداروں کو جانبدار مغلظات پر مجبور کیا
مذہبی شخصیت پرستی سے نفرت کرنے والے اپنے اپنے سیاسی خداؤں کی پرستش میں مصروف ہو گئے اور دوسروں کے سیاسی بتوں سے انکار اور پھر ماحول تاریک تر ہوتا چلا گیا اور ہوتا جا رہا ہے
مذہب سے یا مولویوں سے بیزار لوگ سیاست کی گندی گنگا میں اشنان کرنے میں خوشی محسوس کرنے لگ گئے
سماجی رابطے کی سائٹ کے پر امن ماحول کو ٹرینڈز کی دوڑ اور ہیش ٹیگ کی گیمز جیسی غلاظت سے مزین کر دیا گیا
گالم گلوچ کسی مذہبی سیاسی جماعت و سماجی طبقے اور بچے جوان بوڑھے مرد و عورت کا خاصہ نہیں ‘ پچاس سال پہلے بھی گالی دی جاتی تھی ‘ آج بھی دی جاتی ہے
اک بات اچھے لوگ چھوڑ کر جا رہے تیزی سے
آپ کا یہ انداز اور موضوع دیکھ کر حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ آپ آخر کار اس دلدل میں پھنسنے سے پہلے ہی سنبھل گئے
گڈ ‘ کیپ اٹ اپ اینڈ کیپ ڈسٹنس فرام دوز پرسنز
(سم آف یور فیمس فولوونگ )