مورخہ: 28 مئی؛ سنہ: 1198ء؛ مقام: راسکوہ، چاغی، بلوچستان۔
‘اللہ اکبر’ کے بلند وبالا نعروں کے ساتھ ملک بھر میں پاکستانی ٹی وی کے پردوں پر پہلے کامیاب جوہری تجربہ کا مشاہدہ کرتے ہیں؛ بیشتر ان نعروں میں شامل ہو جاتے ہیں، اور دیگر شکر وامتنان کے جذبات کے ساتھ اپنے اللہ کے سامنے سروں کو خم کر دیتے ہیں۔ ‘اللہ سب سے بڑا ہے’، یہی مسلمانوں کی زبانوں کو تر، دماغوں کو معطر اور دلوں کو جرات وحوصلہ سے معمور کر دینے والی تکبیر ہے؛ آج کے دن چاغی کے ان تجربوں کے ذریعہ اللہ نے پاکستان کی جبینِ افتخار پر جوہری ہتھیاروں سے مسلح ریاست ہونے کا تاج رکھ کر اس کے دشمنوں کے دلوں پر اس کا رعب ودبدبہ قائم کر دیا۔ مسلمان اللہ کے نام سے، اللہ کی ہی تکبیر سے حوصلہ پا کر کامیابی وترقی کی ہر سیڑھی پر پیش رفت کرتے ہیں، چنانچہ، آج کا دن یومِ تکبیر قرار پایا!
دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی جرمنی کے جوہری اثاثوں کا مالک بننے کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے ولایت ہائے متحدہ کے جارحانہ عزائم پر مبنی منصوبہء مانہاٹن کے ساتھ جوہری دنیا کی کہانی سنہ 1939ء میں شروع ہوتی ہے۔ اگست سنہ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے پہلے ہی ولایت ہائے متحدہ کی فتح کا سورج طلوع ہونے لگا تھا اور جاپان کو تمام محاذوں پر شکست ہونے لگی تھی، تبھی ولایت ہائے متحدہ نے 26 جولائی کو پوٹسڈام اعلانیہ کے ساتھ اور کسی بھی جواز کے بغیر 6 اور 9 اگست کو دو جوہری بموں کے ذریعہ کروڑوں کی آبادی کو بھیانک ترین دھماکوں سے بھسم کر کے بربریت کی وہ مثال قائم کی جس نے مستقبل کی عسکری تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔
دوسری عالمی جنگ سنہ 1945ء میں سات کروڑ پچاس لاکھ ہلاکتوں اور عالمی سطح پر تباہی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی، لیکن حضرت انسان دہشت اور قتل وغارت گری کے اس کھیل سے الٹے پاؤں واپس ہونے کے بجائے ہتھیاروں اور شر انگیزی کی اس دوڑ میں مزید رفتار پکڑنے والے تھے۔ سنہ 1945ء میں منصوبہء مانہاٹن کے شرکاء میں سے پی ایس گل نامی ایک شخص اپنے وطن ہندوستان لوٹا، اور ہندوستان اپنی ولادت کے ساتھ ہی جوہری صلاحیت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو گیا۔
تقسیمِ ہند کے بعد سنہ 1954ء میں نہرو نے ہندوستانی جوہری منصوبہ کے لئے خصوصی فرائض پر مامور عہدیدار کے طور پر پی ایس گل کی تعیین کی۔ پی ایس گل، جو بدنامِ زمانہ منصوبہء مانہاٹن کے ذریعہ ٹھوس تجربہ حاصل کر چکے تھے، جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن اور پیداوار کے ہندوستانی منصوبہ کے پہلے گاڈ فادر بن گئے۔ آپ سنہ 40ء اور سنہ 50ء کی دہائیوں میں ہندوستانی جوہری منصوبہ میں کلیدی اہمیت کی حامل شخصیت اور نہرو کے مشیرِ خاص رہے۔
سنہ 1968ء میں ہندوستان نے جوہری عدمِ انتشار کے معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
ہندوستان سنہ 1971ء تک پاکستان کے ساتھ تین اور چین کے ساتھ ایک بڑی جنگ کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کی حدود میں گھسنے کے متعدد واقعات میں ملوث رہ چکا تھا، جن میں سے ایک جنگ میں اس نے اپنے ہمسایہ پاکستان پر اپنی تربیت یافتہ ‘مکتی واہنی’ اور اپنی فوجوں کو مسلط کیا جو مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش کا نام دینے میں کامیاب ہو گئیں۔ سنہ 1948ء کی جنگِ کشمیر اور سنہ 1965ء کی جنگ کے بعد یہ پاکستان کے لئے سب سے کاری ضرب تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے جارحانہ عزائم رکھنے والے اس دشمن سے اپنے تحفظ کے بارے میں سوچنا شروع کیا جو پاکستان کو تباہ برباد کرنے کے اپنے مقصد کی تکمیل کی راہ میں آرام وسکون تیاگ بیٹھا تھا، یہی وقت تھا جب ہندوستان کو باز رکھنے کے مقصد سے جوہری منصوبہ کو پہلی مرتبہ زیرِ بحث لایا گیا۔
پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں پہلا قدم وزیرِ اعظم ذو الفقار علی بھٹو کے زیرِ قیادت سنہ 1972ء میں رکھا۔ ذو الفقار علی بھٹو صاحب نے کہا تھا:
“اگر ہندوستان بم بناتا ہے، تو ہم ہزاروں سال تک گھاس اور پتے کھا کر اور فاقے کر کے بھی اپنا بم بنائیں گے۔ مسیحیوں کے پاس بم ہے، یہودیوں کے پاس بم ہے، اور اب ہندوؤں کے پاس بھی بم ہے۔ تو پھر مسلمانوں کے پاس بم کیوں نہ ہو؟”
سنہ 1974ء میں ہندوستان نے اندرا گاندھی کے زیرِ قیادت اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا۔ خطہ میں سٹریٹجک توازن بدل چکا تھا، اور ہندوستان نہ صرف پاکستان جیسے ملک بلکہ پورے خطہ کے لئے ایک طاقتور خطرہ کی شکل میں ابھر رہا تھا۔ 3 جون سنہ 1994ء کو ہندوستان نے درمیانی رینج رکھنے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ یہ پاکستانی شہروں کے اندر ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے اوسط رینج کے میزائلوں کے سلسلہ میں ہندوستان کی ترقی کا انتباہ تھا۔
سنہ 1997ء تک ہندوستان اگرچہ عملاً ہر ممکن محاذ پر پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہا تھا، پھر بھی اس نے سفارتی سطح پر یہ کبھی نہیں کہا کہ اس کی میزائل ٹیکنالوجی پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی۔
جون سنہ 1997ء میں ہندوستان نے اپنے میزائل پاکستانی سرحدوں کے قریب منتقل کر دئے۔
11 سے 13 مئی سنہ 1998ء تک راجستھان کے پوکھرن علاقہ میں ہندوستان نے ہندو قوم پرست اکثریتی سیاسی جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم اے بی واجپائی کی زیرِ قیادت زیرِ زمین جوہری تجربہ کیا۔
اس واقعہ نے سنہ 1971ء اور 1974ء کے واقعات کے باوجود پاکستان کی طرف سے کافی عرصہ تک برقرار رکھے گئے توازن کو پھر سے ہندوستان کے حق میں کر دیا۔ دوسری طرف ہندوستان نے تمام سفارتی معیاروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیا۔
15 مارچ کو ہندوستانی وزیرِ اعظم نے دھمکی دی کہ ان کا ملک ایک ‘بڑا بم’ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو ملک کے دفاع کے لئے استعمال ہو گا، نیز آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔
ان دھماکوں کے بعد 18 مارچ کو وزیرِ داخلہ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کو ‘خطہ کی سٹریٹجک صورتِ حال میں آنے والی تبدیلی کو سمجھنے’ کی دعوت دی، اور ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں کسی علیحدگی پسند مسلمان بغاوت کو ہوا دینے کی کوششوں سے پاکستانی حکومت کو خبردار کیا۔
یہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پر حملہ اور اس کی عام شہری آبادی پر جوہری بمباری کا خطرہ تھا، بلکہ ایک نا معقول پڑوسی کے مستقل قبضہ اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک غیر محفوظ مستقبل نیز پاکستان کے لئے علاقائی معاملات میں ایک غیر فعال پوزیشن کا بھی خطرہ تھا۔ پاکستان گھِر چکا تھا، چنانچہ یہ ردِ عمل کے اظہار کا وقت تھا، دشمن پر جوابی حملہ کر کے قوم کے مورال اور حوصلہ کو پھر سے جِلا دینے کا وقت تھا۔
یہ اپنی واپسی درج کرنے کا مناسب موقع تھا، عالمی برادری نے نہ تو ہندوستان کی مذمت کی تھی نہ ہی اس کو ان تجربوں سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے سامنے یا تو اقوامِ متحدہ کی فیصلے کرنے کی قابلیت سے عاری عدالتوں میں درخواست پیش کرنے کا راستہ تھا، یا پھر وہ خود ایسے تجربے کر کے عالمی برادری میں سربلند ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے جوہری تجربے شاید کرہء ارض کے تمام کمزوروں اور خاص طور پر مسلم دنیا کے لئے ایک علامت کی حیثیت رکھتے تھے، جو پاکستان کے جوہری تجربوں پر عمل در آمد کرنے کے فیصلہ کے بے چینی سے منتظر اور اس کے بہت خواہشمند تھے۔
اس وقت پاکستان وزیرِ اعظم نواز شریف کے زیرِ قیادت تھا۔ آپ کو سخت دباؤ اور دھمکیوں کے علاوہ مشرق سے مغرب تک چکاچوند کر دینے والی پیشکشوں کا سامنا تھا؛ پاکستان کا ساتھ دینے والے بس چند گنے چنے ہی تھے، وزیرِ اعظم کو فیصلہ کرنا تھا، اور انہوں نے فیصلہ کر لیا!
19 مارچ کو وزیرِ اعظم نواز شریف نے قومی سطح پر نشر کی جانے والی ایک تقریر میں کہا: “آج آپ نے سنا ہو گا کہ وہ کشمیر کے حوالہ سے اپنے جارحانہ عزائم پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم ہر قسم کی آزمائش کے لئے تیار ہیں، اور تمام دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔”
آخر کار وہ مقدس لمحہ آ ہی گیا جب پاکستان نے نئی بلندیوں کو چھوا، ایک ایسی دنیا میں ظلم وجبر کے سامنے سرکشی کا اعلان کیا جہاں ظالموں کا ہی راج اور ظلم کا ہی دور دورہ ہے! آخر کار پاکستان واپس آ گیا، اور بڑی آن بان سے واپس آیا!
28 مئی سنہ 1998ء کو پاکستان نے بلوچستان کے راسکوہ چاغی علاقہ میں پانچ کامیاب جوہری تجربے کرنے کا اعلان کیا۔ ان تجربوں نے پاکستان کو فخریہ طور پر عالمی سطح کی ایک باصلاحیت جوہری طاقت کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ پاکستان مسلم امت کی واحد جوہری طاقت ہے۔ اس دن کو یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔
پاکستان اور اس کے جوہری منصوبہ کے حوالے سے باہر کی دنیا میں اکثر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ایک خود مختار ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے لئے ان اثاثوں کو ہمہ وقت تیار رکھنا اس کے قومی مفاد کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن پاکستان کے پُر امن عزائم، اور اس کے ذاتی دفاع اور ضدی اور ہٹ دھرم دشمن کو باز رکھنے کے حق کو عالمی ذرائعِ ابلاغ اور سیاسی محاذوں پر منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک نیز اس کے جوہری اثاثوں کو غیر محفوظ ہاتھوں میں قرار دینے کی کوششیں بارہا کی گئیں۔ ہندوستان کے حلیف ممالک پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے اور اس کی مالی امداد کرنے کے بعد عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے میں سارا زور صرف کر کے پاکستان کی اقتصادی ترقی نیز دوستی اور تعاون کے حصول کی راہ میں حائل ہو گئے اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔
اصل اور اہم سوالات شاید وہ نہیں جو دوسروں نے اٹھائے ہیں۔ اہم ترین سوالات تو وہ ہیں جو ہر پاکستانی کو اپنے آپ سے پوچھنے چاہئیں۔ کیا پاکستان ایک جھگڑالو ملک ہے؟ کیا پاکستان اپنے علاقائی ہمسایوں کے ممالک پر قبضہ کی خواہش یا جارحانہ عزائم رکھتا ہے؟ مرکزی دھارے میں شامل ذرائعِ ابلاغ کا موضوع ہونے کی وجہ سے یہ سوالات ایک ضرورت بن چکے ہیں، پاکستان کو گھیرنے کی کوششوں نے پاکستانیوں کو شکستہ، اداس اور خود اذیتی کا شکار کر کے ان کا مورال توڑ دیا ہے۔
اس سوال کا جواب چند مزید سوالات کو کریدنے کا متقاضی ہے۔ کیا ہم جوہری بموں کے بغیر زیادہ محفوظ ہوں گے؟ کیا پاکستان نے کبھی کسی ملک پر حملہ کیا یا ہمسایہ ممالک میں سے کسی کی مٹی کی ایک انچ پر بھی قبضہ کیا؟ اپنے ارد گرد دیکھئے، کیا دنیا بھکاریوں کو دیتی ہے یا مقابلہ پر مبنی اس دنیا میں جس کی لاٹھی ہے اسی کی بھینس بھی ہوتی ہے؟ کیا ہمارا مقصد اقتصادی پابندیوں سے بچنا اور امداد کا حصول ہونا چاہئے یا ہمیں عالمی برادری میں عزت واحترام، آزادی اور اپنے وقار کے تحفظ کا خواہاں ہونا چاہئے؟
پاکستان کی جوہری تلوار، ہماری بہادر افواج اور حوصلہ مند ثابت قدم عوام کے ساتھ ایک ضرورت تھی اور پاکستان اور اس کے حلیفوں کے لئے فخر اور طاقت کا باعث ہے۔ یومِ تکبیر کے موقع پر ہندوستان کو یہ پیغام دینا مناسب ہے کہ:
“فکر مت کرو، ہندوستان! ہم حملہ میں پہل نہیں کریں گے، کیونکہ ہم جھگڑالو نہیں بلکہ امن پسند لوگ ہیں، لیکن اگر تم حملہ کرو گے تو ہم جوابی کارروائی کرنے میں پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں کریں گے۔”
اللہ پاکستان کا حامی وناصر اور اس کی عوام کا محافظ ہو!
پاکستان زندہ باد! اسلام پائندہ باد!
Pakistan zandabad , Islam zandabad,