اللہ! کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ تجھ سے ہم کلام ہوں۔ یقین کر میرے رب میں اپنی اوقات کبھی نہیں بھولا۔ مجھے ٹھہر ٹھہر کر خیال آتا ہے اس گندے قطرے کا جس سے میری پیدائش ہوئی، میں جانتا ہوں کہ میری وسعت تو اپنے اندر جھانکنے تک کی نہیں، تجھ سے کیا کلام کروں گا! انسان کی شاید حقیقت ہی یہی ہے، اپنی طرف سے نادان کبھی سُپر مین بننے کے خواب دیکھتا ہے تو کبھی اس چیز پر تُل جاتا ہے کہ یہ دنیا سائنس کے بنیادی مفروضوں پر چل رہی ہے۔ لیکن بد قسمت انسان اکثر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ جس مفروضے کی بنیاد پر وہ پھنے خان بنا پھرتا ہے اسی مفروضے کو ایک اور سائنس دان غلط ثابت کر دیتا ہے۔ ہر گزرتے پل ایک نیا مفروضہ آتا ہے اور اگلے ہی لمحے رد بھی ہو جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سائنس دان ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لئے آپس میں ہی لڑتے رہے۔ نیوٹن ساری زندگی روشنی کو wave (لہر) کہتا رہا، اور آئنسٹائن نے اس کو particle (ذرہ) کہہ کر اس کی خصلت ہی بدل دی۔ کبھی چارلز ڈارون کے ایولوشن (evolution) کے گُن گاتی رہی یہ دنیا، لیکن میرا رب بھی قادرِ مطلق ہے۔ میرا رب جب کہتا ہے کہ انسان کی عقل محدود ہے تو انسان نادان آنکھیں دکھاتا ہے، پھر اِتراتا ہے، پھر اپنی پوری قوت لگا دیتا ہے رب کو غلط ثابت کرنے میں، پھر پھنس جاتا ہے کسی ایسی جگہ جہاں اس کی ساری عمر لگ جاتی ہے لیکن جواب نہیں ملتا۔ سائنس کہتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز کو چلانے کے لئے ابتدائی فورس (قوت) کی ضرورت ہے۔ مثلاً کوئلوں کو سلگانے کے لئے شعلے کی ضرورت پڑتی ہے، مثلاً بجلی نہ ہو تو بلب نہیں جلتا۔ آج انسان ناچتے گاتے اور جھومتے ہوئے دعوی کرتا ہے کہ میں جان گیا کہ اس کائنات میں زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی، لیکن اس بدبخت انسان کی جانے کتنی عمریں یہی جاننے میں لگ گئیں کہ کائنات کے اس پہلے مفروضہ خلیے میں جان کیسے آئی۔ بے تحاشہ سائنسی ترقی کے باوجود انسان نادان تو یہ تک نہ جان سکا کہ ماں کے پیٹ میں ساکن خون کے لوتھڑے میں اچانک حرکت کہاں سے آ جاتی ہے؟ لیکن میرا اللہ بہت رحیم ہے، مہلت پہ مہلت دیے جاتا ہے کہ انسان تُو سُدھر جا! لیکن نادانوں کی قسمت میں شعور کہاں۔ نادان بتدریج بد معاشی کرتا ہے اور بڑے تکبر سے کہتا ہے کہ میں نے مصنوعی بادل بنا لیا! میرا رب بھی قہار ہے، میرے رب میں بھی جلال ہے۔ میرا رب پھر اسی بادل سے انہی پر بجلی گراتا ہے جو کرہء ارض کو پھاڑ دیتی ہے۔ انسان پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر میرا رب بھی آنکھیں دکھاتا ہے اور بڑے جلال سے پوچھتا ہے کہ کوئی ہے جو آگے آئے؟ پھر انسان کہتا ہے کہ میں رب کو ڈھونڈنے آسمانوں سے آگے جاؤں گا! سورج سے سینکڑوں میل دور سے ہی واپس مڑ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ آگے جانا ممکن نہیں۔ میرا رب ایک بار پھر جلال سے پوچھتا ہے کہ کوئی ہے جو آگے آئے؟ بے شک وہ وقت دور نہیں جب وہی سورج انسان کے سر پر آ جائے گا اور یہی نادان انسان ایسے تڑپتا پھرے گا جیسے کسی مچھلی کو سمندر نے خود اچھال پھینکا ہو۔ میرا اللہ جانتا ہے کہ انسان کی اوقات کیا ہے۔ شاید اسی لئے میرا اللہ بار بار پوچھتا ہے کہ کیا تم صرف ایک غلیظ نجس سے قطرے نہیں تھے؟ اور پھر میرا اللہ انسان کو اس کے کرتوت بھی بتاتا ہے کہ زمین پر اِترا کر ایسے چلتا ہے جیسے زمین اُلٹ دے گا۔ بے شک وہ دن دور نہیں جب تکبر خاک میں مل جائے گا اور میرا اللہ پھر سے پوچھے گا۔
کیا تم ایک غلیظ نجس سے قطرے نہ تھے؟
We are power less and only can seek true guidance from Allah.