ملکی و بین الاقوامی منظرنامے پر پیش آنے والے حالیہ چند واقعات اس امر کے متقاضی ہیں کے پا کستان کی قومی اساس کے تناظر میں ان واقعات سے منسلک جو تفصیلات نظریاتی الجھن کا باعث بن رہی ہیں ان کا ایک عملی اور غیر جذباتی تجزیہ کر نے کی کو شش کی جائے- ممتاز قادری کی پھانسی اور محترمہ شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم کو ملنے والی عالمی “پذیرائی“ انگریزی اصطلاح میں سوشل میڈیا (سماجی ابلاغ) پر ہاٹ کیک موضوعات ہیں جن پر جاری بحث سے پورا پاکستان ایک میڈیا فرینزی میں مبتلاء نظر آتا ہے- ردعمل کے حولے سے دونوں واقعات کے حامی اور مخالفین جذباتیت کی ایک انتہاء پر کھڑے نظر آتے ہیں اور حسب معمول زیادہ تر موقعوں پر معاملے کے جائزہ کے لیے کسی اصول یا دلیل کے بجائے سستی جذباتیت سے گندھی کج بحثی کو بنیاد بنایا جا رہا ہے – زیادہ قابل افسوس بات اس تمام معاملے میں معاشرہ کے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے کا مؤقف ہے جو بظاہر چوک اور تھڑے پر بیٹھے کسی نا سمجھ ان پڑھ شخص سے قطعی مختلف نہیں-
با ت ممتاز قادری کی پھانسی ہو یا محترمہ شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم کی، بحث کے آغاز ہی میں نام نہاد مذہبی اور لبرل انتہاء پسند آپ کو بالترتیب کفر اور ذہنی پسماندگی کا شکارکے لقب سے نوازتے ہیں – ایک کے نزدیک مذہب کی وہ تشریح ہے جو خود اسکے سوا ہر ایک کو قابل گردن زنی ٹہراتی ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک آغاز انسانیت سے لیکر آج تک روئے زمین پر ہونے والے ہر شر کی جڑ مذہب سے ملتی ہے-اگر ذرا غور کیا جائے تو دونوں طبقوں کے مؤقف میں بنیادی سطح پر کوئی فرق نہیں – اختلاف رائے سے فرار اور غیرمنطقیت سے مزین دونوں بیانیوں میں عدم برداشت اور وسعت کی غیر موجودگی نے پاکستانی معاشرے کو ایک خطرناک تقسیم میں مبتلاء کر رکھا ہے، جس کے فکری اور عملی دونوں محاذوں پر سدباب کی اشد ضرورت ہے – دونوں گروہ اپنے اپنے روایتی کلیشے کے علم تھام کر دیوانہ وار میدان میں رقصِ بسمل میں مصروف ہیں جس کی گرد ریاست کے بنیادی خاکے کو دھندلا رہی ہے –
پاکستانی معاشرے میں نظر آتی موجودہ تقسیم کی جڑیں ماضی میں کافی دور تک جاتی ہیں- حال کے معاملات کی اُلٹ پھیر نے ان کی بنیادی ترتیب پر کوئی خاص فرق نہیں ڈالا- ماضی ہو یا حال پاکستان کے وجود پر سوال اٹھانے والے ہر شخص کا تعلق مندرجہ بالا بیان کیے گئے ان ہی طبقات سے ہو گا، یعنی انانیت کا شکار ملا یا مذہب سے متنفر لادینیت کا علمبردار نام نہاد لبرل – اپنے جوہر میں یہ دونوں طبقات پاکستانی معاشرے کے لیے زہر ہلاہل کا کردار ادا کر رہے ہیں – لا یعنی معاملات کو ہوا دے کر سماج میں نظریاتی اور فرقہ پرستی تقسیم کو فروغ دینا ان کا اولین مقصد ہے کہ یہ وہ آگ ہے جس پر یہ دونوں حضرات اپنی روٹیاں سینکتے ہیں-
تحریک پا کستان کے دنوں ہی سے وجود پاکستان سے خائف طبقات کی کھلی نشاندہی ہو گئی تھی جو تنگ نظر مذہبی تھیوکریسی اور لا دینیت سے مزین مغرب زدہ عناصر پر مبنی تھے ۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت ‘مسٹر“ اور “ملا“دونوں کی دکھتی رگ ہےجہاں پاکستان کی اسلام سے وابستگی مغرب اور مغرب سے مرعوب ذہنیت کے پروردہ سیکیولر طبقے کی آنکھ کا شہتیر ہےوہاں مذہبی تھیوکریسی کو مذہبی معاملات پر قائم اپنی اجارہ داری خطرے میں دِکھتی ہے ، توہینِ رسالت کا قانون کئی آنکھوں میں اسی وجہ سے کھٹکتا ہے- کبھی قانون کے خلاف بیرونی مہم چلائی جاتی ہے تو کبھی “ذرا سوچیئے“ جیسے اندرونی وار –
ممتاز قادری کی بات کرنے سے پہلے ایک بات واشگاف الفاظ میں واضح کرنے کی ضرورت ہے -کسی مسلم مرد و زن کے دل میں حرمتِ رسول للہ صلی للہ و علیہ وسلم کی اہمیت سے متعلق کوئی دو رائے نہیں – آپ صلی للہ و علیہ وسلم کی شان اقدس اور آپ للہ صلی للہ و علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے منسلک ایک ایک ذرے کی حرمت ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جُزو ہے – ایمان کے اس جُزو کی حفاظت کا اہتمام ریاست پاکستان کے آئین میں درج ہے- اگر کوئی شخص اس جُزوِ ایمانی کی حرمت سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے تو ریاست اس سے سختی سے نبٹے گی – لیکن ریاست کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ کوئی شخص مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کر قانون کی علمداری اپنے ہاتھ میں لے- ریاست کو یہ امر بھی ممکن بنانا چاہیے کہ توہینِ رسالت صلّی اللہ علیہ وسلم کے قانون کا کوئی فرد یا ادارہ غلط استعمال نہ کرے، مدعی اور ملزم دونوں کو ایک شفاف قانونی عمل سے گزارا جائے جس کی صداقت پر کسی کو شک نہ ہو- توہین رسالت کرنے والے کو قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس کا غلط استعمال کرنے والوں کا قانونی محاسبہ اشد ضروری ہے۔ احتساب کے اس عمل کو توہینِ رسالت کے قانون کا لازمی حصہ ہونا چاہیے تاکہ ایمان کے عشق رسول صلی للہ و علیہ وسلم جیسے اہم جزو کو اپنوں اور غیروں دونوں کی ریشہ دواینوں سے بچایا جا سکے۔
اگر کوئی ایسا کرے گا تو پھر نیت سے قطع نظر اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا- اگر معاشرہ میں ہر شخص قانون کی ذاتی تشریح سے مسلح ہو کر اس کو نافذ کرنے نکل پڑے گا تو پھر ایک ملک اور جنگل میں کوئی فرق نہیں- وہ تمام احباب جو ممتاز قادری کی سزا پر چراغ پا ہیں انہیں ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا چاہیے کہ ایک شخص کی حمایت میں کیا وہ توہین رسالت کے قانون کے مخالفین کے ہاتھ میں تو نہیں کھیل رہے؟ ایسا قانون جو ملک میں نافذ ہے ، کیا وہ ریاست کے بجائے فرد کی حمایت کر کے اس قانون کی جڑیں تو کمزور نہیں کر رہے؟
ریاست کو یہ ہر صورت ممکن بنانا چاہیے کے انصاف کی فراہمی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے – ایک شفاف عدالتی عمل سے گزر کر اگر کوئی شخص توہین رسالت رسول صلی للہ و علیہ وسلم کامرتکب پایا جاتا ہے تو مجرم کو بغیر کسی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہوئے قرار واقعی سزا دینا ریاست کا فرض ہے-ساتھ ساتھ ریاست کو سزا کے عملدرآمد میں ہر قسم کے اندرونی و بیرونی دباؤ کو مسترد کرکے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ پاکستان انصاف کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے اورپاکستا ن کے اندرونی معاملے میں کسی بیرونی فرد یا ادارے کو فکر مند ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں –
آخر میں پاکستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق مغرب کی سرپرستی میں جاری ہاہاکار سے متعلق عرض کرتا چلوں کہ بےشک پاکستانی معاشرہ میں خواتین کے ساتھ جاری استحصالی رویہ ختم ہونا چاہیے اور ان کو معاشرہ میں کسی بھی دوسرے شہری کی طرح تحفظ، روزگار کے مواقع عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر حاصل ہونے چاہئیں،
رہیں شرمین چنائے اور خواتین کے حقوق پر ملے انکے آسکرز تو محترمہ سے گزراش ہے کہ ایسی ہی کسی دستاویزی فلم کے لیے موضوع کے انتخاب کے دوران پاکستان کے کچھ مثبت چہرے بھی چُن کر دیکھیں یا کم از کم غیرت کے نام پر ہونے والی خواتین کے نوحے کا دائرہ تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں – ان مظلوم عورتوں کا مرثیہ بھی اپنے توجہ کے لائق سمجھیں جو مغرب میں اپنے سابقہ شوہروں اور عشاق کے ہاتھوں قتل ہوتی آرہی ہیں لیکن شاید خطرہ یہ ہے کہ موضوع کی وسعت یا انتخاب کی جدت آپکو اگلے سال آسکر اور فنڈز سے محروم نہ کر دے-