کسے اچھا نہیں لگے گا اگر اُن کی نئی نسل میں سے کوئی آگے بڑھ کر اپنی قابلیت کے بل بوتے پر یہ اعزاز حاصل کرلے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپنا مدعا بیان کرسکے، اور اقوامِ عالم کو بتا سکے کہ ہم کن مشکلات سے دوچار ہیں اور ہم کیسے ان مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا بھی تو کیا گونگوں اور بہروں کے اُس اجلاس میں شامل بے ضمیر اقوام کے وہ رہنما اُن سب باتوں پر کان دھریں گے یا اُسے سُنی سُنائی کردینگے؟ کیونکہ اُن میں اکثریت اُن ممالک کی ہے جو عراق، افغانستان پر چڑھائی کرکے لاکھوں مسلمانوں کی تباہی کا سبب بن چکے ہیں اور جن کے کان پر لاکھوں فلسطینی، برمی اور شامی بچوں اور بچیوں کی چیخوں کے بعد بھی جوں تک نہیں رینگتی، وہ سب کیسے ایک دم “ملالہ” پر اتنے مہربان ہوگئے؟ کیا اسی لئے کہ ملالہ کو ایک مثال بنا کرنئی نسل کی مسلمان پشتون لڑکیوں میں بغاوت کا بیج بویا جاسکے اور تاکہ آنے والی پشتون نسلوں میں تعلیم کے نام پر ترقی پسندی اور آزاد خیالی سے محبت اور اسلامی شعائر سے اور پختون روایات سے نفرت کو بڑھایا جاسکے؟ تاکہ مستقبل میں پختونوں کی ایسی نسل سے مغرب کا سامنا ہو جن کو فتح کرنے کیلئے اُنہیں پاپڑ نہ بیلنے پڑیں اور تسخیر شدہ ذہنوں کے ساتھ مغرب اور اس کی ثقافت کے ڈھول بجاکر اسلام اور پختونوں کی اس طرح توہین کرسکیں کہ اُنہیں پتہ بھی نہ چل سکے بلکہ اس پر فخر کریں؟ مغرب کے بارے میں یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہونگے یہ بہت بڑی بھول ہوگی، قرآن نے صاف لفظوں میں کہاہے کہ یہود و نصاریٰ تُمھارے دوست نہیں ہوسکتے اور ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ مغرب میں یہودیوں کا اثر ورسوخ اور عیسائیت کا کتنا زور ہے۔
اگر مغرب واقعی ہمارے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے بارے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اُنہیں ڈرون جیسے مہلک ہتھیاروں کے حملے بند کرنے ہونگے اور ملالہ کے ساتھ ساتھ اُن بچیوں کی بھی ستائش کرنا ہوگی جن میں ملالہ سے زیادہ قابلیت ہے پر اُن علاقوں میں خوف و ہراس کی وجہ سے تعلیم سے قاصر ہیں۔ ملالہ ڈرامے کی ناکامی اسی سے ثابت ہے کہ آج بھی پختون بچے اور بچیوں میں اپنے دشمن کی پہچان اور اسلام اور پختون روایات سے محبت قائم ہے اور ملالہ کا نام دن بہ دن ناکامی اور بدنامی کا باعث بن رہاہے جس سے سوائے بدبو کے اور کچھ نہیں آتا۔ نہ ہماری بچیاں اپنی روایات بھولی ہیں اور نہ خوش قسمتی سے اُنہیں ملالہ کے والد جیسے ضمیر فروش والد ملے ہیں جو اپنی بچیوں کے کچے ذہن میں اپنے آزاد خیال فلسفے ٹھونس ٹھونس کر بھردیتے ہیں۔
ہماری ناکامی اور شرمندگی کی سب سے بڑی وجہ قرآن و سنت سے دوری ہے جس کے باعث ملالہ جیسے کرداروں کو ملالہ کے ضمیر فروش باپ جیسے کردار پروان چڑھا کر ہماری آنے والی نسلوں کیلئے باعثِ شرمندگی بنادیتے ہیں، میں بحیثیت ایک قبائلی پختون کے ملالہ کو پختون کہنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں کیونکہ جہاں تک میں پختون روایات کو جانتا ہوں وہاں ملالہ اور اسکے موقع پرست والد کی کوئی جگہ نہیں بنتی اور اللہ کرے ہماری آنی والی سب نسلوں میں ان جیسے لوگ پیدا ہی نہ ہوں جو کہ اپنی غیرت کو ایسے نیلام کریں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ مجھے اپنے چچا جان کی یہ دُعا آج بہت یاد آرہی ہے جس میں وہ کہتے تھے کہ “اللہ بد ټيکرئ او بد پګړئ راکښی پیدا مه کښئ” اللہ کرے ہمارے ہاں بُرا لڑکا اور بُری لڑکی پیدا نہ ہو اور جب بھی ملالہ کا نام سُنتا ہوں، میرے لبوں پر یہ دُعا ضرور آتی ہے۔
Author has shown the real face of this so called propoganda of malala …
well said. y don’t they release Dr. Aafia? Malala is a fantasy. what about the girls of Kashmir? i hate those who have directed this “Malala film”.
If Malala is so moral and conscientious why doesn’t she raise a voice against the detention of Dr Afia. Doesn’t she notice what America and its allies are doing to Muslims the world over. Shame on you Malala