جموں وکشمیر آج 13 جولائی کو ‘یومِ شہدائے کشمیر’ کی 82ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی عوام اور دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے کشمیری بھی اس دن کو جوش وخروش سے منا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا دن ہے جس نے کشمیریوں کی تقدیر بدل ڈالی۔
13 جولائی کشمیر کی تاریخ میں واحد ایسا دن ہے جب دونوں جماعتیں، ہند نواز بھی اور آزادی پسند بھی، ان بلند پایہ شخصیات اور آزادی پسند غیور افراد کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہیں جن کے مکرّم خون نے پوری وادئ کشمیر کو آزادی کے جذبے اور ولولے سے ہمکنار کیا۔
کشمیر میں ایک طرف یہ دن جلسوں، کانفرنسوں، سیمیناروں اور ریلیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، تو دوسری طرف مکمل ہڑتال کر کے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھارت کے جبری تسلّط کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ شہدائے کشمیر کے لئے اس دن خصوصی دعائیہ محفلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ سرینگر کے مزارِ شہداء پر بھی دعائیہ محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
13 جولائی سنہ 1931ء
یہ وہ دور تھا، جب کشمیر کی مظلوم مسلمان عوام کے ساتھ ڈوگرہ حکومت کے کارندے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔ جو کام گھوڑوں اور خچروں سے لیا جا سکتا تھا، وہاں ایک کشمیری مسلمان کو جبراً اس کام کے لئے مقرر کیا جاتا تھا۔ سر والٹر لارنس اپنی ایک مشہور کتاب “The India We Served” میں لکھتے ہیں: “مہاراجہ کے سپاہی کشمیریوں سے جبراً کام کرواتے تھے، اور فصل کٹائی کے وقت زیادہ تر حصّہ بطور تاوان ان سے لے لیا جاتا تھا اور تھوڑا سا غلّہ ان مظلوم کشمیریوں کے لئے رکھا جاتا تھا۔”
آگے لکھتے ہیں: “یہاں تک کہ ظلم وبربریت کا ماحول ایسا گرم تھا کہ پانی اور ہوا کے علاوہ ہر ایک چیز پر تاوان (Tax) لگایا جاتا تھا۔” لوگوں کو طرح طرح کے مظالم سہنا پڑتے تھے۔
اس ظلم وجبر سے تنگ آ کر بالآخر 21 جون سنہ 1931ء کو “Young Man’s Muslim Association” (تنظیمِ نوجوانانِ اسلام) نامی ایک پلیٹ فارم نے، جس کی صدارت شیخ محمد عبد اللہ کر رہے تھے، ایک عام جلسہ کا اہتمام کیا۔ خانقاہِ معلی کے اس عظیم جلسے میں وادی کے مختلف علاقوں سے مشہور ومعروف دانشوروں اور علمی ودینی شخصیات نے بھر پور حصّہ لیا۔ مورخین کے مطابق شیخ محمد عبد اللہ نے اس جلسے میں وادی کے مسلمانوں کو یکجہتی اور پنڈت برادری کو مسلمانوں کا ساتھ دینے کی ترغیب دی۔ سب نے مل کر اس عہد نامے پر منظوری کا اظہار کیا۔ بعد میں جو ہوا، وہ بھی اپنے آپ میں ایک مکمل کہانی ہے کہ کس طرح عہد کرنے والے اپنے ہی عہد سے مُکر گئے۔
اس مجمعے میں ایک جواں سال شخص نے آخری کچھ لمحات میں اپنی تقریر شروع کی۔ جی ہاں! یہ صرف تقریر تھی، مگر یہ الفاظ کشمیر کی تقدیر بدل ڈالیں گے، کسی کو بھی اس چیز کا علم نہیں تھا!
“قرآن اور اسلام کی اہمیت اور رتبہ مسلمانوں کے نزدیک اس دنیا کے ہر عہدے سے بڑھ کر ہے۔ ہم اپنے دین میں کبھی بھی کوئی بیرونی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ اے مسلمانو! اٹھو، وقت آ گیا ہے جب ظلم وجبر کا مقابلہ کرنا لازمی ہے۔ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یہ دستاویزات اور معاہدے کسی کام کے نہیں۔ ان چیزوں سے ظلم وستم کم نہیں ہوں گے۔” عبد القدیر خان نے تو اپنی دھواں دھار تقریر ان الفاظ سے شروع کی، مگر لوگوں کے دلوں میں ایک آگ لگا دی۔ وہ کشمیری عوام کے دلوں میں آزادی کا جذبہ اور ولولہ اُجاگر کر گئے۔
راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبد القدیر خان بآوازِ بلند پکارے: “زمین بوس کر دو، اس ظلم وجبر کے قلعے کو!”
جلسے میں شامل لوگ فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے آزادی کے حق میں اور ڈوگرہ سامراج کے خلاف ایک نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا، کہ کسی شخص کی پر مغر تقریر نے لوگوں کے دلوں پر اتنا جلد اثر کیا کہ لمحوں میں لوگ ‘اللہ اکبر’ کے نعرے لگا رہے تھے۔
کشمیر کے اس جد وجہد کے سر چشمے عبد القدیر خان کو اس تقریر کی بنا پر دفعہ 124(A) اور دفعہ 153 کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
مردِ حق کے جن الفاظ سے لوگوں کے دل پگھل گئے، ظاہر ہے ان سے ڈوگرہ راج کا تخت کیوں نہ ہِل جاتا۔ آخر کار کیس کی شنوائی سرینگر کے مرکزی جیل میں رکھی گئی تاکہ لوگوں کے ہجوم سے بچا جا سکے۔
مگر اس شیر دل کی آواز نے وادی کے مسلمانوں پر کچھ ایسا جادوئی اثر کیا تھا کہ وہ جانیں دینے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرکزی جیل کے باہر پہلے ہی موجود اپنے قائد، اپنے ہیرو کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب تھے۔ لوگ احتجاج کر رہے تھے اور عبد القدیر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دین کے سپاہی جو عبد القدیر خان کے گرویدہ ہو گئے تھے، وہ یہاں سے ہٹنے کو تیار نہ تھے کہ نماز کا وقت آ گیا، مگر نماز کے لئے اجازت نہ ملی۔ لیکن وہ دین کے سپاہی جو عبد القدیر خان کے گریدہ ہوگئے تھے کب کسی ظالم کی سُننے کو تیار تھے! ایک مردِ مجاہد اذان دینے کے لئے کھڑا تو ہوا مگر سفاک مہاراجہ کے ایک سپاہی نے اس کو گولی مار کر شہید کر دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پورا مجمع مشتعل ہو کر پولیس پر زبردست پتھراؤ کرنے لگا۔ فوج کو بلایا گیا اور بے حس سپاہیوں نے بے دریغ 22 بے گناہ مسلمانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کے شہید کر دیا، اور بے شمار گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ پوری وادئ کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں پھیل گئی، اور آزادی کا ایک نیا جذبہ دلوں کے اندر پیدا ہوا۔ اس مجرمانہ حرکت کے خلاف پوری وادی میں 19 دن کی مکمل ہڑتال رہی۔
آزادی کا نعرہ عبد القدیر خاں نے دے تو دیا، مگر وہیں قوم کے غداروں نے اس ولولے اور جذبے کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا، اور ڈوگرہ سامراج کے ختم ہونے کے بعد اپنی قوم کے گلے میں اور ایک غلامی کا پھندہ ڈال دیا۔ سنہ 1947ء کی اس شرمناک سازش اور غداری سے تو ہر ذی نفس انسان واقف ہے، کہ کس طرح ایک آزاد ریاست کو بھارت نے جبراً قبضہ کر کے معاہدوں اور دستاویزات کی دھجیاں اڑا دیں، اور کشمیر کو پھر سے ظلم وستم کے شعلوں میں دھکیل دیا۔
سنہ 1947ء سے لے کر آج تک کشمیر جواہر لعل نہرو کے وہ الفاظ دُہرا رہا ہے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت کے استعمال کا موقع دیا جائے گا۔ کشمیر کے لوگ ابھی بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ مگر دنیا کے باسی اپنے آپ میں مست ہیں۔ دوسری طرف بھارت کشمیر میں ظلم وجبر کے نِت نئے طریقے استعمال کر کے بھی دنیا کی ایک بڑی جمہوریت کا لقب یافتہ ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں عام کشمیریوں کو شہید کیا گیا، ماؤں بہنوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں، بچے یتیم ہو گئے۔ مگر بھارت کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ ظلم وجبر کا بازار ابھی بھی گرم ہے۔ مگر کشمیر کے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ
؎ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔