بلا شبہ ہماری آزادی ہمارے بے شمار شہداء کی اَن گنت قربانیوں کی مرہون منت ہےاور وطن کی ناموس کیلئے مر مٹنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا، زندہ قوموں کا ہی شیوہ ہوتا ہے۔ کوئی قوم بھی اُس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک وہ اپنے نظریے اور اپنی دھرتی کی ناموس کی ہر ایک شے سے بڑھ کر حفاظت نہیں کرتی۔ قومیں یقینی طور پر کبھی بھی کسی سے شکست نہیں کھا سکتیں جب تک وہ اپنی تاریخ کو اپنائے رکھتی ہیں۔ دُنیا کی ہر قوم پر کٹھن وقت ضرور آتا ہے لیکن زندہ قومیں اپنے اتحاد و یکجہتی اور بے مثال جذبے سے لبریز ہو کر تاریخ میں اپنے مقدس لہو سے ایسے نقوش چھوڑتی ہیں جنہیں صدیاں بھی ختم کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
اور ایسی قوم کی صفوں میں یقینی طور پر ایسے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جو بہادری اور جرات کی لازوال اسلامی روایت کی پاسداری کرتے ہوئےاپنے ملک کے سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی اور مادرِ وطن کے دفاع کیلئے اپنا لہو بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ افواجِ پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی قوم کے یہ جری سپوت بے لوث جذبے سے سرشار(محض معمولی تنخواہوں کے عوض) اپنے گھروں اور گھر والوں سے دور اپنے فرائض ِمنصبی سر انجام دیتے ہیں۔
یوں تو سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کریڈٹ پر بہت سے کارنامے ہیں مگر تاریخ اُنہیں ایک اور حوالے سے بھی یاد کریگی کہ اُن کے زیرِقیادت پہلی بار 30 اپریل 2010ءکو یومِ شہداء منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور اِس دن کو اُن جوانوں اور افسران سے منسوب کیا گیا جنہوں نے پاکستان کے دفاع اور انسداد ِدہشت گردی کیلئے اپنی قیمتی جانیں نچھاور کیں۔ اور یہ دن یعنی یومِ شہداء تقریباً 5 سال تک افواجِ پاکستان میں پُورے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا۔جس میں پاک بھارت جنگوں میں شہید ہونے والےفوجیوں کے علاوہ ،سوات، مالا کنڈ، شمالی و جنوبی وزیرستان اور دیگر ایجنسیوں میں شہید ہونے والے سپاہیوں کو خصوصاًخراجِ عقیدت پیش کیا جاتا تھا۔ مگر جنرل راحیل شریف کے دور میں بجائے اِسکے کہ( 30 اپریل )کو حکومتِ پاکستان سے سرکاری سطح پر ایک قومی دن کی حیثیت دلوائی جاتی ، اُسے افواجِ پاکستان میں بھی منانا بندکر دیا گیا۔ جس سے یقینی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان کی بازی لگانے والے ہزاروں فوجی افسران و جوانوں کے لواحقین کی دل آزارای ہوئی ، جن میں سے ایک میرا گھرانہ بھی ہے۔کیونکہ جنرل کیانی نے شہداء کے لواحقین کی استدعا پر ہی جی ایچ کیو راولپنڈی میں یادگارِ شہداء کی تعمیر کروائی اور مورخہ 30اپریل کودہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان دینے والے پاکستان کے نڈر سپاہیوں کے نام سےموسوم کیا ۔ مگر واضح رہےاَب یہ دن کسی بھی سطح پر نہیں منایا جاتا۔
لہٰذٰا تمام شہداء کے گھرانے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین سے ملتمس ہیں ہیں کہ 30 اپریل کو سرکاری سطح پر یوم شہداء کا درجہ دیا جائے۔ کیونکہ حکومتِ پاکستان کے اِ س احسن قدم سے نہ صرف شہداء کے لواحقین کے حوصلوں کو تقویت ملے گی بلکہ یہ قدم یقیناًپاکستان کے دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے کو بھی وضع کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔ نیز نوجوان نسل کو اپنے اصل اور حقیقی ہیروز سے آشنائی ملے گی جو محض اُنکے بہتر و روشن مستقبل کی خاطر اپنے گھرانوں کے آنگن اور زندگیاں تاریک کر گئے۔
آخر میں ،میں افواجِ پاکستان کے تمام شہداء اور اُنکے لواحقین کو اپنی تحریر کردہ ایک نظم کی صورت میں خراج ِعقیدت پیش کرنا چاہوں گی۔
وفائیں ہماری بھول مت جانا
آنے والی نسلوں کو بتانا
کون تھے ہم ،کیوں گمنام ہو گئے
زندگی ہمیں بھی تھی پیاری
کیوں ہم ابدی نیند سو گئے
سوال تھا اِس دیس کے مستقبل کا
اِسکے ننھے پھولوں کے روشن کل کا
اپنے رشتوں کا ہم نے ایثار کیا
اُنہیں بھی تھی ضرورت ہماری
پر ہم نے بس اِس دھرتی سے پیار کیا
زندگی ہم نے اپنی وار دی
لہو سے اپنےاِس مٹی کو بہار دی
لہو کو ہمارے بھول مت جانا
کہانی ہماری آنے والی نسلوں کو سنانا