خواجہ ناظم الدین نے اپنے علی گڑھ میں زیر تعلیم بیٹے کے نام خط میں لکھا،
“تم کو چاہئیے کہ تحریکِ پاکستان کے کام میں کوئی غفلت نہ ہو۔ تم تو اگلے سال بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہو، مگر قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آیا کرتا۔”
1930ء میں الٰہ آباد کے مقام پر منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا جو ان کے نزدیک برصغیر کے مسئلے کا واحد حل تھا۔ اس تصور کو مخالفین نے “شاعر کا خواب” قرار دیا، مگر یہی وہ تصور تھا جو 23 مارچ 1940ء کی “قرارداد لاہور” کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جس میں مسلمانانِ برصغیر نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں برصغیر کی تقسیم کے علاوہ کوئی بھی حل قابلِ قبول نہیں! قرارداد کو کانگریس اور برطانوی پریس دونوں نے درخوئے اعتناء نہیں سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مطالبہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی نیک نیتی، یک جہتی اور جدوجہد سے اقبال کے اس خواب میں تعبیر کا رنگ بھر دیا اور محض سات برس کی قلیل مدت میں دو صدیوں کی غلامی سے آزادی تک کا سفر طے کر لیا۔
مگر آزادی کے ان گذرے سالوں پر نظر دوڑائی جائے اور موجودہ حالات کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے کماحقہ سبق حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں، جہاں انگریز سرکار نے
“Divide and rule”
کے نظریے کا اطلاق کر کے برصغیر پر دو سو سال حکومت کی۔ یہ نظریہ آج بھی وطنِ عزیز میں استعمال ہوتا نظر آ رہا ہے!
قائداعظم کے قوم کے نام چھوڑے گئے پیغام “ایمان، اتحاد، تنظیم” پر بطورِ قوم عمل کرنے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ جہاں کوئی لسانی تعصب کو ہوا دے تو ہم میں سے کچھ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔ صوبائیت کو ہوا دی جائے تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے مرکز کو بھول جاتے ہیں۔ اپنے محلِ وقوع کی بناء پر کوئی اپنا شہر یا صوبہ الگ کرنے کا اعلان کرے تو اس کے حق میں نعرے بلند کرنے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان مذہب کے نام پر استحصال کرے تو ان کی ہمدردی میں بھی کچھ لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ اس ملک کے لئے اتحاد ، وہ نظریہ جو اس ملک کے قیام کا باعث بنا اس پر ایمان اور اس ملک کی ترقی کے لئے نظم و ضبط سبق جو ہمیں قائد نے دیا ، اسے یاد رکھنے میں ہمیں مختلف قسم کی دشواریوں کا سامنا ہے۔
70 برس قبل آزادی حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایک امتحان کا سامنا تھا، آج اس ملک کو قائم رکھنے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ہمیں ایک اور امتحان کا سامنا ہے۔ وہ ملک جو ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا اور جس نظریے کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے جان اور مال کی قربانی دی، ہر عصبیت سے بالاتر ہو کر ایک “قوم” بن کر اپنا ایک الگ گھر حاصل کیا، آج اس قوم کو صوبائی، لسانی اور مذہبی انتہا پسندی کے نام پر تقسیم کرنے والے اس ملک و قوم کے خیر خواہ ہرگز نہیں ہو سکتے۔
بحیثیت قوم ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارا ہر عمل، کسی کے حق میں بلند کیا گیا ہر نعرہ، کسی کی ہمدردی میں اٹھایا گیا ہر قدم، اس ملک کے نظرئیے کے مخالف تو نہیں ؟
“Divide and rule”
کے نظرئیے کو استعمال میں لا کر ہمارا دشمن ہمیں پھر سے زیر تو نہیں کرنا چاہ رہا؟ جس مقصد کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے آگ اور خون کا دریا پار کیا تھا، ہم اس مقصد سے روگردانی اور خیانت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ کیونکہ آج بھی ہمیں ایک امتحان کا سامنا ہے، جس میں کامیابی کے لئے ہمیں وہی کرنا ہوگا جو آج سے ٹھیک 77 برس قبل کرنے کی ٹھانی تھی، “ہر عصبیت اور تفریق سے بالاتر ہو کر ، بحیثیت قوم ان تھک محنت” ۔ اور ہر برس 23 مارچ کا دن اسی فیصلے کو یاد دلانے اور اس کی تجدید کیلئے آتا ہے۔ بطور قوم اس عہد کو نیک نیتی سے پورا کرنے کا اس سے بہتر وقت کوئی اور نہیں ہو سکتا، کیونکہ قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آیا کرتا!
اور قائد اعظم نے بھی ہمیں یہی پیغام دیا ہے
”میں چاہتاہوں کہ آپ بنگالی ،سندھی،بلوچی، اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں ۔ کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیاتھا؟ یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں ،سندھی ہیں، پٹھان ہیں ؟ ہم تو بس مسلمان ہیں۔”
(یکم مارچ 1948ء۔ ڈھاکہ)