“لوگو! میں تم میں سے ہی ایک انسان ہوں، اگر مجھ کو خلیفۂ رسول کے حکم کی خلاف ورزی منظور ہوتی تو میں کبھی اس منصب کو قبول نہ کرتا۔
یا اللّٰہ! میں سخت ہوں، مجھے نرم کر۔ یا اللّٰہ! میں کمزور ہوں، مجھے قوت عطا کر۔ یا اللّٰہ! میں بخیل ہوں، مجھے سخی بنا۔
یہ تمہارے اور میرے دونوں کے لئے کڑی آزمائش کا وقت ہے۔ خدا کی قسم! تمہارا جو بھی معاملہ میرے سامنے آئے گا میں اسے خود طے کروں گا اور امانت و دیانت کے دامن کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دوں گا۔ اگر لوگوں نے بھلائی کی تو میں بھی ان کے ساتھ بھلائی کروں گا اور اگر کوئی برائی کرے گا تو میں اسے ایسی سزا دوں گا کہ لوگ عبرت حاصل کریں۔”
یہ الفاظ اس خطبے کے ہیں، جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ارشاد فرمایا۔ یہ وہی عمر بن خطاب ہیں جن کا لقب “فاروق” ہے۔ جو عشرۂ مبشرہ میں سے ایک ہیں۔ جن کا شمار دنیا کے بہترین حاکموں میں ہوتا ہے۔ جن کی معاملہ فہمی، شجاعت و دلیری اور عدل و انصاف کے سامنے دنیا کی بڑے بڑے مصلحین، فاتحین اور عدل گستروں کے چراغ گُل ہو جاتے ہیں۔
ہجرتِ نبوی سے تقریباً 37 برس قبل، قریش کے قبیلے بنی عدی کے سردار خطاب بن نفیل کے ہاں حضرت عمر بن خطاب کی ولادت ہوئی۔ یہ قبیلہ علم و حکمت، تدبر اور زورِ تقریر کی وجہ سے ممتاز اہمیت کا حامل تھا اور قریش کی سفارت اور ثالثی اسی کے سپرد تھی۔ حضرت عمر کے والد خطاب کا شمار بہت جابر اور بے رحم انسانوں میں ہوتا تھا، باپ کی خوبیوں اور خامیوں، دونوں میں سے، آپ کو حصہ ملا، جبکہ فوجی صلاحیتیں ماں کی طرف سے ورثے میں پائیں۔
عکاظ کے میلے نے آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا، جہاں آپ کی سخن شناسی اور جوشِ خطابت کے ساتھ ساتھ شہسواری اور پہلوانی کے سامنے بھی عرب کے جوانوں میں سے کوئی ٹھہر نہ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا شمار ان گنتی کے چند لوگوں میں ہوتا تھا جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔
زمانۂ جاہلیت میں حضرت عمر تند خوئی، بے رحمی اور تعصب میں اپنے والد سے بھی بڑھ کر تھے، اور آپ کا شمار دینِ حق کے مخالفین میں ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے نورِ ہدایت سے مشرف ہونے کا واقعہ بھی بے مثل ہے۔ آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد آپ ہی کے مشورے پر رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلم نے دیگر صحابہ کی معیت میں علی الاعلان نماز ادا کی۔ حضرت عمر نے مقاطعہ کی مشکلات پورے صبر و تحمل سے برداشت کیں۔ ہجرت کا حکم ہوا تو بعض روایات کے مطابق آپ خاموشی سے جبکہ بعض روایات کے مطابق، قریش کو للکارتے ہوئے نکلے۔
مدینہ میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی صلاحیتوں کو نکھرنے کا موقع ملا، جہاں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اکثر آپ کی رائے جیسا کہ نماز کے لئے اذان، ام المؤمنین کے پردے، شراب کی حرمت اور غزوۂ بدر میں قیدیوں سے متعلق آپ کی راۓ کے حق میں قرآنی آیات نازل ہوئیں۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے تمام غزوات میں شرکت کی، نہ صرف دادِ شجاعت دی بلکہ مالی امداد میں بھی پیش پیش رہے۔ غزوۂ احد میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ سننے کے بعد آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نڈھال ہو گئے مگر جب یہ خبر غلط ثابت ہوئی تو دیگر صحابہ کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے اس قدر بے جگری سے لڑے کہ خالد بن ولید اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی بطور خلیفہ تقرری کے موقع پر آپ کی معاملہ فہمی اور تدبر نے ملتِ بیضاء کا شیرازہ بکھرنے سے بچا لیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے تمام مدتِ خلافت میں آپ کو دستِ راست کا منصب دیا اور آپ کے مشورے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ حتٰی کہ دیگر صحابہ کے مشورے سے آپ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد خلافت کا منصب سنبھالنے پر آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے جو خطبہ دیا، اس نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا، اور ان کے دل سے آپ کی سختی کا خوف جاتا رہا، حتٰی کہ لوگ منبر پر بھی آپ سے بازپرس کرنے سے نہ گھبراتے۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کا دورِ خلافت مختلف حوالوں سے تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ عراق، شام، ایران، فلسطین اور مکران تک کے علاقوں کی فتح جہاں آپ کی فوجی حکمت عملی اور تدبر کا پتہ دیتی ہے تو دوسری طرف اتنے بڑے علاقے کی صوبوں میں تقسیم اور ان کا نظم و نسق آپ کی انتظامی صلاحیتوں کی دلیل ہے۔
ایک طرف عمال اور دیگر منتظمین کے چُناؤ میں آپ کی جوہر شناسی قابلِ تحسین ہے تو تقرری کے وقت عمال کو دیا جانے والا ہدایت نامہ (جس کی رُو سے وہ چھنا ہوا آٹا کھا سکتے ہیں نہ ترکی گھوڑے کی سواری کر سکتے ہیں۔ دربان مقرر کر سکتے ہیں نہ عام لوگوں کیلئے دروازے بند کر سکتے ہیں،) اور اس کی سختی سے پاسداری کو یقینی بنانا بھی لائقِ تعریف ہے۔
فوج، پولیس اور بیت المال کے محکمے آپ کے دورِ خلافت میں منظم خطوط پر استوار ہوئے۔ آپ کے دور میں ہونے والے اجتہاد کا نتیجہ ‘فقہ اسلامی’ ہے-رعایا کے حقوق کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ نہایت خُدا خوفی سے کام لیتے، رعایا کی خبر گیری آپ کا معمول تھا۔ مساکین اور غرباء کے روزینے اور یتیموں اور بچوں کے وظائف آپ ہی کے دورِ خلافت میں جاری کئے گئے جس کی تقلید آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کی جاتی ہے۔
27 ذوالحج 23ہجری کو فجر کی نماز کی امامت کے دوران ایک مجوسی غلام ابو لولو فیروز نے خنجر سے آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ پر حملہ کر دیا، اس کے دئیے ہوئے زخم جان لیوا ثابت ہوئے۔ یکم محرم 24 ہجری کو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپ کے ذمہ واجب الادا قرض، آپ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کے فرزند نے جائیداد فروخت کر کے تدفین سے قبل ہی بےباق کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی ذات دنیا کے حکمرانوں، منصفوں اور سپہ سالاروں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی زندگی اور حکومت سے شجاعت و دلیری، بے باکی، علم و حکمت، جنگی تدبر اور فلاحی مملکت کے انتظام و انصرام کے لا تعداد اسباق اخذ کئے جا سکتے ہیں۔