برصغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی کے نتیجے میں برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہوا تو اسے ہندو رہنماؤں اور تب کی برطانوی حکومت نے تسلیم نہیں کیا، اور ہر ممکن طریقے سے نوزائیدہ مملکت اور برصغیر کی مسلم آبادی پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ریڈکلف کی بددیانتی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں نہ صرف بہت سے مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت میں شامل کر دیا گیا بلکہ بھارت کو کشمیر میں بھی غیر قدرتی راستہ فراہم کیا گیا۔ ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی، بغاوت کے خوف سے مہاراجہ نے بھارت سے امداد طلب کی جسے بھارت نے الحاق کی شرط پر منظور کر لیا۔ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوئیں، اور کشمیری عوام جو پچھلی ایک صدی میں کشمیر کی فروخت اور حکمرانوں کے ظلم و جبر کا شکار تھی، پر ایک نئی آزمائش کا در وا ہو گیا۔ گو کہ بھارت اس دن کو “یومِ الحاق” کے طور پر مناتا ہے، مگر مقبوضہ جموں وکشمیر کے باسی اور دنیا بھر کے کشمیری اس دن کو “یومِ سیاہ” کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
بھارتی غاصبانہ تسلط سے نجات پانے کیلئے کشمیری قبائل اور مجاہدین نے پاکستان کی مدد سے مسلح جدوجہد شروع کی جس پر بھارت اس قضیے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور استصواب رائے کا وعدہ کر کے جنگ بندی کا پروانہ حاصل کیا، مگر 1952ء میں بھارتی حکومت نے “آئینی جارحیت” کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا “اٹوٹ انگ” قرار دیا اور استصواب رائے کے انعقاد سے یکسر انکار کر دیا۔ کشمیریوں کی پانچویں نسل آزادی جیسے بنیادی حق کے حصول کیلئے برسرپیکار ہے، اپنے اس حق کی خاطر جدوجہد کرنے کی پاداش میں مقبول بھٹ، افضل گورو اور برہان وانی جیسے نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔ جبکہ کشمیری عوام کو بھی آزادی کے حصول کے لئے آواز بلند کرنے پر پیلٹ گنز کی شکل میں سزا سنائی گئی جو سینکڑوں کشمیریوں کی بینائی چھین چکی۔ انٹرنیٹ اور اخبارات پر پابندی کی صورت میں زباں بندی اس سب کے علاوہ ہے۔
کشمیر پر اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لئے نئے بھارتی مذموم ہتھکنڈوں میں کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ 1947ء میں، تقسیم برصغیر کے موقع پر ، کشمیر کی آبادی 77 فیصد مسلمان اکثریت پر مشتمل تھی جبکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد حصہ مسلمان آبادی پر مشتمل ہے۔ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی آرٹیکل 370 اور 352 اے کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا عندیہ دے چکی ہے جبکہ مختلف حیلوں سے بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی جداگانہ ریاستی تصور کو ایک دکھاوے کی حد تک محدود کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں منصوبہ بندی کے تحت آبادی کے تناسب کو ہندو آبادی کے حق میں جھکایا جا رہا ہے۔
•1947ء میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور ہزاروں کو لاپتہ کر دیا گیا۔
•1976ء کی زرعی اصلاحات کے تحت بہت سے غیر کشمیری افراد کو کشمیری اراضی کے مالکانہ حقوق دئیے گئے۔
•2001ء سے 2011ء کے دوران لداخ اور کارگل کی ہندو آبادی میں 100 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
•امرناتھ یاترا کی آڑ میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جاتا ہے (جس کا ہندو پنڈتوں کو بھی 1990ء سے پہلے علم نہیں تھا) ، اور اس “عبادتی مشن” کی مد میں ہندو پنڈتوں کی کشمیر میں آبادکاری مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔
اقوام متحدہ کی 30 مارچ 1951ء کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے پر کوئی آئین، مقننہ یا قانون اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا بھارتی حکومت کی آبادی کے تناسب پر اثرانداز ہونے کی تمام کوششیں اقوام متحدہ کی قرارداد کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔
گلاب سنگھ کے ہاتھوں کشمیر کی فروخت سے لے کر مودی سرکار کی کشمیر دشمن پالیسیوں اور توسیع پسندانہ عزائم تک کشمیریوں کی آزمائش کئی صدیوں پر محیط ہو چلی ہے۔ مگر، ٹارگٹ کلنگ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے پانچ سالہ برہان سے لے کر آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے کی پاداش میں پیلٹ گنز کی وجہ سے بینائی سے محروم ہونے والے نوجوانوں تک، جدوجہد آزادی میں نئی روح پھونکنے کے جرم میں جان کی بازی لگانے والے برہان وانی سے لے کر اس کی شہادت کے بعد لگنے والے کرفیو کو توڑنے پر گرفتار ہونے والے ہر کشمیری تک، ہزاروں لاپتہ افراد، ہزاروں گمنام قبریں، مقبوضہ وادی کی ہزاروں آدھی بیوائیں ، سب مل کر بھی اقوام متحدہ سے حسبِ وعدہ استصواب رائے منعقد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آبادی کا تناسب بدلنے والی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر ہے، انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے ممالک گنگ ہیں۔ مگر وہ دن دور نہیں جب بھارتی سامراج کی ہر سازش ناکام ہوگی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد نئے سرے سے منظم ہونے والی کشمیر کی تحریک آزادی منزلِ مراد ضرور حاصل کرے گی، کیونکہ تاریخ کا سبق ہے کہ ایک قوم کو ہمیشہ کیلئے محکوم نہیں رکھا جا سکتا۔ اپنے بنیادی حق کی جدوجہد میں پاکستان کی حمایت ہر سطح پر کشمیریوں کے ساتھ ہے، کیونکہ کشمیر پاکستان کے ساتھ جغرافیائی، مذہبی اور تاریخی لحاظ سے جڑا ہوا ہے۔ اور کشمیر کی آزادی تک پاکستان کی آزادی بھی ادھوری ہے، کیونکہ بانئ پاکستان نے کہا تھا:
“کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔”