ایڈن برگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹس لوگوں کو کُند ذہن بنا رہی ہیں۔ کیونکہ ان سائٹس پر مصدقہ اور غیر مصدقہ معلومات کی وافر ترسیل کے باعث لوگ اب انہی پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ جس سے ان کی اپنی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ماند پڑ رہی ہیں اورلوگ رفتہ رفتہ ذہنی سست روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک ہمیں اس امر سے بھی بخوبی ہوتا ہے کہ روزانہ ہماری نظروں سے بے شمار ویب پوسٹس اور انفو گرافکس گزرتے ہیں اور ہم اُن میں سے کتنی پو سٹس کو جانچ پڑتال کے بعد شیئر یا لا ئک کرتے ہیں؟؟؟ یقیناً ہم ایک بار بھی کچھ شئیر کرنے سے قبل ایسا ہرگزنہیں کرتے۔ انٹرنیٹ ٹریفک کا تجزیہ کرنے والی ایک “ہارٹ بیٹ” نامی ویب سائٹ کے مطابق 90 فی صد لوگ بنا پڑھے ہی کسی مضمون/پوسٹ/بلاگ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ “ٹویٹر” پر شئیر کر دیتے ہیں۔ اور یہ بات بالکل ہمارےعمومی رویوں کی بھی عکاس ہے، ہم بِنا جانے کہ فیس بک پر فلاں پیج کون اوراپنےکس مذموم ایجنڈے کے تحت چلا رہا ہے، دھڑا دھڑاس پیج کو لائک کرتے چلے جاتے ہیں اورایسے میں ہم بھی نا دانستہ طور پر ہی سہی مگر ملک دشمن قوتوں کے ناپاک مقاصد کے حصول میں اُن کا آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ مگر چند افراد تو دانستہ طور پر مالی فوائد یا کسی اور لالچ کے عوض اپنے ملک کے قومی وقار کے ساتھ ساتھ، اپنی وفاداری کو بھی بڑا سستا نیلام کر دیتے ہیں۔ اور زیادہ تر یہ کام ملک دشمن عناصر اپنے تربیت یافتہ ایجنٹوں سے لیتے ہیں۔ جن کا ہدف صرف اور صرف پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانا، بین الصوبائی دراڑوں کو گہرا کرنا، فرقہ ورانہ نفرت اور انتہا پسندی کو ہوا دینے کے علاوہ، اسلام اور پاکستانی افواج کے خلاف محاذ آرائی جیسی گھناؤنی سرگرمیاں شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہماری آنکھیں اور کان بند کر کے لائک اور شیئر کرنے کی مجموعی روش بسا اوقات، جہاں ہماری اسلامی شعائر اور پاکستان کے قومی تشخص کو گھائل کرنے کا سبب بنتی ہے، وہیں اس سے انٹرنیٹ پر چند ایسے عناصر کی دکانیں ضرور چمک اُٹھتی ہیں جہاں سے اذہان کو زہرآلودہ کرنے کا کام تواترسے سر انجام دیا جاتا ہے۔اور ہماری سست مزاجی و کم عقلی کے باعث جلد ہی یہ مُٹھی بھر” فارن فنڈِڈ عناصر” ہماری صفوں میں انتشار و خلفشار پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اگر تھوڑا غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسلام کے خلاف سرگرمِ عمل ایسے عناصر کی حقیقی طاقت ان کے پیچھے غیر ملکی این جی اوز یا پاکستان مخالف ہاتھ نہیں بلکہ ہم سب لوگوں کی “غیر معمولی توجہ” ہے۔ اور بالخصوص ہماری بنا تحقیق کئے، لائک یا شیئر کرنے کی قومی عادت ہے، یقینی طور پر جس کا فائدہ پاکستان اور اسلام دشمن ایسی قوتوں کو پہنچ رہا ہے، جو کہ “ضربِ عضب” اور دیگر ملٹری آپریشنز میں افواج پاکستان سے منہ کی کھانے کے بعد اب پاکستان کے خلاف “پراکسی وار” کا دائرہ انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس تک وسیع کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مگر ہم پُرامید ہیں کہ یہاں بھی انہیں شکست فاش ہی ہو گی۔
اب بھارتی ایجنٹوں کی، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے بہروپ میں نام نہاد دُکانیں مزید نہیں چل پائیں گی کیونکہ حکومت پاکستان کو معاملات کی سنگینی و نزاکت کا نہ صرف احساس ہے بلکہ اس نے اس ضمن میں عملی اقدامات بھی لینا شروع کر دئیے ہیں۔ جن میں سرفہرست ایف آئی اے کے انڈر قائم کردہ (این آر تھری سی) نیشنل ریسپانس سنٹر فار سائبر کرائم، کی شکل میں ایک ذیلی ادارہ ہے۔ جو کہ ملکی سلامتی اور قومی اداروں کے خلاف کام کرنے والے بیمار ذہن افراد کو قانون کی گرفت میں لائے گا۔ اور جہاں لوگ سائبر کرائم کے حوالے سے اپنی شکایات بھی درج کرا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اب حساس اداروں کو بھی انٹرنیٹ پر ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے شرپسند گروہوں کے خلاف کاروائی کرنے کے حوالے سے خصوصی اختیارات دئیے جانے کے بارے میں بھی غورکیا جارہا ہے۔ تاہم بات صرف یہاں ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ نیکٹا کو بھی اپنی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا دائرہ اب سوشل میڈیا تک وسیع کرنا چاہیے کیونکہ یہاں ضربِ عضب میں شکست خوردہ قوتیں اب جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے تکفیری سوچ کا نیا بیج بونے کی تیاری کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ لہٰذا اس ضمن میں ہم پر بھی بحیثیت ذمہ دار شہری کچھ انفرادی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن سے ہم کسی صورت بھی منہ نہیں موڑ سکتے۔ جن میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران ذہنی و فکری طور پر نہ صرف ہوشیار رہنا بلکہ کسی بھی پیج یا پوسٹ کو لائک یا شیئر کرنے سے قبل اس کے حقائق کی ضروری جانچ پڑتال جیسے اہم ترین فرائض شامل ہیں۔