میں ایک پاکستانی ہوں۔ آج پاکستان کو وجود میں آئے 69 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اس دن کو منانے کے مختلف لوگوں کے مختلف انداز ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھروں کو جھنڈیوں اور سبز ہلالی پرچم سے سجا رکھا ہے، کچھ منچلے اپنی موٹر سائیکل کا سائیلنسر نکال کر “ون وِیلنگ” کرتے ہوئے آزادی کا جشن منانے میں مصروف ہیں، کچھ کا آج کے روز استدلال ہے کہ پاکستان 15 اگست کو معرض وجود میں آیا تھا لیکن ہمارے آباؤ اجداد کی”سبقت لے جانے کی عادت کے سبب” ہم یومِ آزادی چودہ اگست کو منا رہے ہیں۔ کچھ اس کے قیام سے ہی نالاں اور آج کے روز زیادہ زور و شور سے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس ملک کے مشاہیر کا تذکرہ کر کے انہیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں، اور کچھ لوگ پیچھے رہ جانے والوں کی یاد میں مشغول۔ لیکن مجھے آج کے روز اس قرض کے بارے میں سوچنا ہے جو میرے ذمے واجب الادا ہے!
میری امی نے مجھے بتایا ہے کہ میرے نانا کہا کرتے تھے کہ 1947ء میں عید سے کچھ روز پہلے پاکستان کے قیام کا اعلان ہو گیا ، اور انہوں نے اپنا گھر بار کھلا چھوڑ کر پاکستان کے لئے رختِ سفر باندھ لیا تھا، جس ٹرین میں انہیں پاکستان آنا تھا اس میں اس قدر بھیڑ تھی کہ انہیں لگا ان کا دم گُھٹ جائے گا، سِکّھوں کے بلوے کا ڈر دم گھٹ کے مرنے کے ڈر سے الگ تھا۔ جب وہ خالی ہاتھ پاکستان پہنچے تو انہیں اپنے خاندان کے لئے ایک گھر اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک مُلک نئے سِرے سے تعمیر کرنا تھا۔
میرے دادا نے مجھے بتایا تھا کہ جالندھر سے پاکستان کی طرف ہجرت کرتے وقت ان کے قافلے پر سِکھوں نے ہلّہ بول دیا تھا، اور میرے دادا کی امی نے اپنی دو بیٹیوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی۔ اس ملک کے لئے انہیں اپنے گھر بار کے ساتھ اپنی ماں اور بہنوں کی قربانی بھی دینا پڑی۔
مختار مسعود صاحب کے الفاظ میں
“یاد رکھنے والوں اور سبق لینے والوں کیلئے تو تحریک کی تاریخ واقعات سے بھری پڑی ہے، جب تحریک عروج پر تھی تو لدھیانہ میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان جس کا نام خواجہ محمد صدیق تھا، پاکستان کے نام پر شہید کر دیا گیا، یوں تو فسادات میں بےشمار مسلمان شہید ہو چکے تھے مگر تحریک کی رعایت سے صدیق کو پاکستان کے پہلے شہید کا خطاب ملا۔ لدھیانہ میں اس کی یاد میں ایک جلسہ ہوا جس میں شمولیت کے لئے لاہور سے اس وقت کے ایک مشہور نوجوان رہنما بھی تشریف لے گئے۔ ان کی تقریر شوکتِ الفاظ سے پُر تھی۔ کہنے لگے”اگر قائد اعظم ہم سے اس راہ میں قربانیاں طلب کریں تو پھر ہر مومن اپنی تاریخی روایات کی عزت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی جان قربان گاہِ عشقِ ملت کے سپرد کر دےگا تاکہ صدیق وہاں اکیلا نہ رہے!” صدیق اب کہاں اکیلا ہے، اس کے ساتھ لاکھوں مہاجر، ہزاروں اغوا شدہ عورتیں، کشمیر کے مجاہد اور جنگِ ستمبر کے شہداء بھی شامل ہیں۔”
” مجھے وہ لوگ یاد آنے لگے جو مینار کے نیچے یا سر زمینِ مینار سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ دور رہ جانے والے نہ جانے کس حال میں ہوں گے اور مینار کی سرفرازی کی قیمت نہ جانے ان کی کتنی نسلوں کو ادا کرنی پڑے۔ جو قیمت وہ ادا کرتے ہیں وہ ہمارے حساب میں قرضے کے طور پر لکھی جاتی ہے اور یہ قرضہ ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو نیچے رہ گئے ہیں وہ تو ہمارے ساتھ چلے تھے کہ یہاں شہ نشین پر جگہ ملے گی مگر وہ ابھی تک خاک بسر ہیں۔ میں نے دل میں سوچا، یہ بھی عجیب بات ہے کہ آزادی اور علیحدہ وطن کے لیےتو ہماری دعائیں صرف سات سال کے قلیل عرصے میں قبول ہو گئیں مگر کچھ اور دعائیں جو ہم نے مانگی تھیں ان پر تو دہائیاں بیت گئیں اور درِ قبولیت ابھی تک وا نہیں ہوا۔ ان دعائوں میں سرِ فہرست دعائے کشمیر ہے جس کے لیے اٹھے ہوئے دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ جنگ بندی لائن کے اس طرف ہے اور دوسرا اُس طرف۔ نہ جانے کیوں اب ہماری دعائوں میں وہ پہلا سا اثر نہیں رہا۔ دور مزارِ اقبال سے ندا آئی:
تیرے امیر مال مست،تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی”
آزادی کے 69 برس گزارنے کے بعد بھی ہم مقروض ہیں، ان بیس لاکھ کے قریب لوگوں کے جو دورانِ ہجرت لاپتہ ہو گئے اور کبھی پاکستان نہیں پہنچ پائے، ان بیس ہزار کے قریب خواتین کے، جو آزادی کے سفر کے دوران اغواء ہو گئیں، ان ایک کروڑ کے قریب مہاجرین کے، جنہوں نے اپنا سب کچھ اس ملک کی خاطر وار دیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔
لیکن جب ہم اس مُلک کو سنوارنے کی بجائے اس کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں، اپنے فرائض کی ادائیگی میں خیانت کرتے ہیں، کسی بھی سطح پر بدعنوانی کرتے ہیں، قانون کے احترام کو ہتکِ عزت سمجھتے ہیں تو میری دانست میں ان تمام بزرگوں کی روحوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ آزادی کی قدر کا ادراک کروانے کیلئے اکثر فلسطین، شام اور عراق کی مثال دی جاتی ہے ، اور کئی بار کشمیر کی!
پاکستان کا یہ یومِ آزادی “کشمیر” کے نام کیا گیا ہے، ان کی جدوجہد کے نام، جو وہ آزادی کی خاطر تقریباً ایک صدی سے کر رہے ہیں۔ جہاں آزادی کی خاطر پانچ سال کا برہان بھٹ جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو بائیس سالہ برہان وانی بھی جامِ شہادت نوش کرتا ہے، اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود سید علی گیلانی اپنے مطالبۂ آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ جس کی آزادی کیلئے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ہاتھ دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہیں!
یوم آزادی اور اس آزاد ملک کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ ہم سال کے باقی 364 دن بھی اس ملک اور اس کے قیام کے مقاصد کو یاد رکھیں اور انہیں پورا کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری سے دیانتداری کے ساتھ عہدہ برآ ہوں، تاکہ اپنے بزرگوں اور شہداء کے سامنے شرمندہ نہ ہوں، اور کشمیر جسے بانئ پاکستان نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے، اس کی آزادی کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھیں۔ ورنہ بقول شاعر
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے، افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے
Pakistan Zindabad.
Very good write up Ms. Aleena Irshad.
May ALLAH bless you alot.
Pakistan Zindabad Again