دشمن قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے نجانے کتنی بار کوئٹہ کو لہو رنگ کیا نجانے، کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑیں، کتنے گھروں کے چراغ گل کئے یہ تو معلوم نہیں مگرایک بات نہایت وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کےہردشمن کوہر بار پاکستانی قوم کے بےمثال جرات و جذبے کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی۔ ہر مشکل میں ہر برے وقت میں اس کے نوجوان سینوں میں حیدری جذبہ لئے اپنی قوم کے سامنے ڈھال بن گئے۔ انہوں نے دشمن کے ہر وار، ہر ہتھیار کو اپنے سینے پیش کر کے روکا۔ ان نوجوانوں میں سے بیشتر کو تو ان کی عمروں سے بھی زائد گولیاں لگیں مگر پھر بھی وہ ملک و قوم کے دفاع کا بوجھ اپنے کندھوں پر لئے یکے بعد دیگرے اپنی جانیں دیتے چلے گئے۔ ان نوجوانوں کے انہی جذبوں کے سامنے مرعوب ہو کر متعدد بار تو دشمنوں نے اپنے گھٹنے ٹیکے جس کی تاریخ بھی شاہد ہے۔ بے مثل کردار و گفتار کے مالک ان سرفرشوں کے بارے میں اکثر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ شاید خدا نے ان کی تخلیق کسی خاص مٹی سے کی ہے۔ اسی لئے تو یہ باقیوں سے اس قدر منفرد و ممتاز ہوتے ہیں کہ ان کی ایک جھلک دیکھ کے ہی یہ گمان ہوجائے کہ یہ تو ‘خدا کے پراسرار بندے ہیں’۔ خدا کے یہی بندے اکثر خدا کی مخلوق کے لئے اک مسیحا کا درجہ پا لیتے ہیں کیونکہ یہ سرفروش ان کے تحفظ کے لئے کسی بھی حال میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ کس قدر خوش نصیب ہے پاکستانی معاشرہ کہ جس میں آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں بھی مائیں اقبال کے شاہینوں کی خصوصیات کے حامل بیٹے جنتی ہیں جو وقت آنے پر دھرتی ماں کی محض ایک پکار پر لبیک کہہ اپنی ماؤں کے دودھ کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی کی لاج بھی رکھتے ہیں۔ میری آج کی کہانی بھی پاک فوج کے ایک ایسے ہی شیر و دلیر افسر کی ہے جس نے موت کے خوف سامنے اتنا بڑا کلیجہ دکھایا کہ خود موت بھی شر مندہ ہوجائے۔
دہشت گردی کی ہولناکیوں کے اثرات ہمارے معاشرے پر گذشتہ پندرہ سولہ سال سے مرتب ہورہے ہیں، ہماری اکانومی تک اس کی نذر ہو چکی ہے۔ اس ناسور کو بطور پراکسی پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سےایک جال کی مانند اس کی سر زمین پر بچھایا گیا اور اس بہتی گنگا میں ہر طرح کی ملکی اورغیر ملکی دہشت گرد تنظیموں نے اپنے اپنے ہاتھ دھوئے۔ القاعدہ اور آئی ایم یو (اسلامک موومنٹ آف ازبکستان) کے حملوں سے تو ہم واقف ہی تھے مگر داعش جو کہ افغانستان کےدرالحکومت کے علاوہ خراسان(ننگر ہار، کنڑ اور نورستان) میں اپنےپنجے گاڑھ چکی ہے،نے بھی ہم پر منظم دہشت گرد حملے کی صورت میں وار کرنے کے لئے 24 اکتوبر 2016ء میں کوئٹہ کے حساس ترین علاقے سریاب روڈ کا انتخاب کیا جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے شرپسندوں کے نشانے پر ہے۔ کوئٹہ کو خون سے نہلانے کے لئے جدید اسلحے سے لیس داعش( خراسان چیپٹر) کے تین خودکش بمباروں نےمنگل کی شب تقریباً 11 بجے سریاب روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ کالج پر دھاوا بولا جہاں اس وقت ساڑھے سات سو کے قریب پولیس اہلکار زیر تربیت تھے۔ ان شر پسندوں نے ان نہتے اہلکاروں پر اندھا دھند فائر کھول دیا اور متعدد کو یرغمال بنا لیا۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں تقریباً 61 کیڈٹس شہید اور 165 کے قریب زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2006ء اور 2008ء میں بھی پولیس کی اسی تربیت گاہ پر راکٹ حملے ہو چکے ہیں جو اس کالج کی حساسیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس حملے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر فرنٹیئر کور اور ایس ایس جی کمانڈوز کے دستے پہنچے جنہوں نے ریسکیو آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا اور ایک خود کش بمبار کو شروع میں ہی ہلاک کر کےسینکڑوں اہلکاروں کی جانیں بچائیں۔ اسی معرکے میں پاک فوج کے ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افسر کیپٹن روح اللہ مہمند کی داستان شجاعت بھی سامنے آئی جن کی بہادری اور جوانمردی نے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
ستائیس سالہ اس نوجوان افسر کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے مگر سالہا سال سے ان کا خاندان پشاور میں مقیم ہے۔ کیپٹن روح اللہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والدین انہیں ڈاکٹر بنانے کی خواہش رکھتے تھے مگر روح اللہ پاک فوج میں شمولیت اختیار کر کے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ا نہوں نے 2011ء میں 125 پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور یوں پاک فوج کی ایک مایہ ناز یونٹ 50 بلوچ رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ بعد ازاں روح اللہ نے ایس ایس جی (اسپیشل سروسز گروپ) میں شمولیت اختیار کی اور ان کا تعلق 2 لائٹ کمانڈو یونٹ سے تھا۔ کیپٹن روح اللہ کو عسکری حلقوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کا شمار پاک فوج کے ان چند افسران میں ہوتا ہے جنہوں نے سینکٹروں کی تعداد میں ملٹری اور ریسکیو آپریشنز میں شرکت کی۔ اس نوجوان افسر کے کریڈٹ پر متعدد نمایاں ترین ملٹری آپریشنز ہیں جن میں باچا خان یونیورسٹی، کرسچن کالونی کے علاوہ مردان کچہری چوک ریسکیو آپریشن شامل ہے۔ علاوہ ازیں، آپریشن ضرب عضب کے بعد انہوں نے تقریباً سات سو سے زائد کی تعداد میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز( آئی بی اوز) میں حصہ لیا۔ اس نوجوان افسر کی انہی خدمات کے عوض انہیں آرمی چیف کی جانب سے اعزازی سند سے نوازا جانا تھا مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
کیپٹن روح اللہ کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ کسی بھی معرکے پر جانے سے قبل دو رکعت نماز نفل ضرور ادا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج میں ریسکیو آپریشن پر جانے سے قبل بھی جلدی سے وضو کر کےدو رکعت نماز نفل ادا کئے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ وہاں پہنچتے ہی کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر ایک ایک کر کے کالج کے کمروں کو کلیئر کرنا شروع کیا اس طرح جب انہوں نے دس کمروں کو کلیئر کرا لیا تو ایک خود کش بمبار بھاگ کر ان کے قریب آنے لگا جس کے سر پر نشانہ لے کر کیپٹن روح اللہ نےا سے خود کش جیکٹ پھاڑنے سے قبل ہی جہنم واصل کر دیا۔ اگر یہ دہشت گرد خودکش دھماکہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا توایس ایس جی کے اہلکاروں سمیت کوئی بھی ان میں سے زندہ نہ بچ پاتا اور آج اس آپریشن کے نتائج بالکل مختلف ہوتے ۔
متعدد اہلکاروں کی جان بچانے کے بعد جب وہ گیارہویں بیرک میں داخل گئے تو وہاں گھپ اندھیرا تھااور تقریباً 40 سے 50 اہلکار اس بیرک میں موجود تھے۔ کیپٹن روح اللہ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا، سارے اپنے بندے ہو؟ میں ایس ایس جی کا افسر ہوں۔ تم لوگ ہاتھ اوپر کر کے باہر نکل جاؤ۔ اتنے میں کیپٹن روح اللہ کو احساس ہوا کے چارپائی کے نیچے کوئی ہے جو کہ تیسرا خودکش بمبار تھا۔ اس سے قبل کے وہ اپنی جیکٹ بلاسٹ کرتا پاک فوج کے اس بہادر سپوت نے نہایت پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےخود کو اس پر گرا کر اس کے خودکش دھماکے کی شدت کو کم کر دیا۔ اور یوں بیرک میں موجود چالیس سے زائد پولیس اہلکاروں کی جان بچ گئی اور انہیں محض معمولی چوٹیں آئیں۔ مگرکیپٹن روح اللہ شدید زخمی ہوئے،خودکش بمبار کی ہڈی سر میں لگنے کے باعث وہ کومہ چلے گئے تھے اور ان کی ٹانگیں بھی سلامت نہیں رہیں تھیں۔ انہیں فوراً سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیاگیا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے بے باک صلاحیتوں کے حامل اس نوجوان کے لئے غازی کا نہیں بلکہ شہید کا درجہ منتخب کر رکھا تھا اس لئے فجر کے وقت 25 اکتوبر 2016ء کو کیپٹن روح اللہ جام شہادت نوش کر گئے۔
ادھر کیپٹن روح اللہ کی والدہ عین اسی وقت خواب میں اپنے بیٹے کی آواز سے بیدار ہو جاتی ہیں جو انہیں آواز دے کر پکار رہا تھا امی۔۔ امی۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ ان کے بیٹے کی ان کو آخری پکار ہے، اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے لخت جگر کی آواز نہیں سن پائیں گی۔ آفرین ہے ایسی ماؤں پر جو روح اللہ جیسے بیٹوں کو جنم دیتی ہیں جو وقت آنے پر ملک و قوم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور مسکراتے ہوئے اپنی جانیں اپنی دھرتی پر قربان کر دیتے ہیں۔ کیپٹن روح اللہ مہمند کی نمازِ جنازہ ان کی والدہ کے آبائی علاقے چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں ادا کی گئی، وہاں سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر پشاور میں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ کیپٹن روح اللہ کو ان کے بےمثال جرأت و جذبے کے اعتراف میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے تمغہ جرأت بعد از شہادت سے نوازا گیا۔
اس نوجوان نے اپنی جان تو دے دی مگر ملک و قوم کی جانب سے ان کی قربانی کو جو پذیرائی ملی وہ بھی دیدنی تھی۔ بلاشبہ کیپٹن روح اللہ جیسے نوجوان ہی معاشرے کے دیگر نوجوانوں کے لئے جہاں مشعل راہ ہیں وہیں یہ پاکستان دشمن قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام بھی ہیں کہ جب تک ہماری صفوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں کوئی بھی پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ان شاء اللہ!