بلکہ ایک ترک پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ‘عشقِ ممنوع’ میں جو موضوع چُنا گیا ہے، وہ تو ترکی میں بھی اتنا عام نہیں، کچھ ہائی فائی طبقوں میں شاید یہ باتیں ہوتی ہوں۔ مگر ترکی کا امیج بھی دنیا میں خراب ہو گیا ہے۔
میں ایک پاکستانی ہوں۔ ٹیلیویژن کا چوکھٹا مجھے مسحور کیے رکھتا ہے جہاں شوبز کی رنگینیاں ہیں اور خبروں اور ٹاک شوز کی گرما گرمی، اور سب سے بڑھ کر ڈراموں کے چٹخارے۔
“جی کیا کہا؟ ڈرامے؟” آواز محظوظ سی تھی۔
“جی ہاں، ڈرامے۔ کیا بات ہے ان ڈراموں کی! واہ واہ!”
“اور کیا خصوصیت ہے ان ڈراموں کی جس نے آپ کو دیوانہ بنا رکھا ہے؟”
“ہمارے مسائل اجاگر کرتے ہیں یہ ڈرامے۔ نئی سے نئی کہانیاں ہوتی ہیں، رنگ برنگی۔” میں نے چٹخارا لیا تھا۔
“ہوں۔” ہنکارا بھرا گیا۔ “مثال کے طور پر یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے یہ کون سا مسئلہ اجاگر کر رہا ہے؟”
” یہ ڈرامہ تو میرا پسندیدہ ہے۔ ہیروئن کی سہیلی اپنے کزن کو پسند کرتی ہے، کزن ہیروئن سے شادی کرنا چاہتا ہے جبکہ ہیروئن کو اپنا کزن پسند ہے جو اسے دھوکہ دے رہا ہے۔ ایک اور ڈرامہ بھی آ رہا ہے ا۔ب۔ج چینل پہ، وہ بھی بہت اعلیٰ ہے۔ ہیرو کی منگیتر اس کو دھوکہ دے کر اس کے بھائی سے شادی کر لیتی ہے اور پھر ہیروئن اسے بڑی مشکل سے زندگی کی طرف واپس لے کر آتی ہے۔”
واہ، ! کیا تنوع ہے موضوعات کا!” آواز میں تمسخر تھا۔
یہ تو میں نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ “نہیں بھئی، ایک اور ڈرامہ بھی ہے، اس میں ساس ایک سازش کر کے اپنی بہو کو گھر سے نکال باہر کرتی ہے اور ۔۔۔”
“ساس بہو اور محبت کے موضوع کے علاوہ بھی کوئی کہانی ہے کیا؟” میری بات کاٹ کر سوال کیا گیا تھا۔
“ہاں بنتے ہوں گےاور کہانیوں پر بھی ڈرامے۔” میں نے بے پروائی سے کہا مگر کچھ یاد آنے پر جوش سے کہا: “ارے اتنے موضوعات پر ڈرامے چلتے ہیں اب تو، اور وہ بھی ترکی کے۔ مثال کے طور پر ‘فاطمہ گل’، ‘فریحہ’، ‘میرا سلطان’ اور ‘عشقِ ممنوع’۔ یہ تو بڑا ہی مشہور ہوا تھا، کئی خواتین کے رسالوں نے تو اس کے خصوصی نمبر بھی نکالے تھے کہ بہلول اور بہتر کی شادی ہو گی یا نہیں۔”
“جی ہاں، اور سنا ہے عبداللہ گل صاحب نے نوٹس بھی لے لیا تھا اس ڈرامے کا۔”
“ہٹائیے بھی۔ ڈرامہ اچھا چل گیا بہت، کہانی سناؤں اس کی؟”
“نہیں جی، بہت سُن لیا اس کے متعلق۔” گھبرائی ہوئی آواز میں کہا گیا۔
“ویسے تو ہمارے فنکار حضرات بہت ناراض ہیں ان ترکی کے “امپورٹڈ” ڈراموں پر، اس سے پہلے ہندوستان کے ڈراموں پر بھی انہیں اعتراض تھا۔ پھر کیوں چلتے ہیں یہ ڈرامے؟” مشکل سوال داغا گیا تھا۔
“مجھے معلوم نہیں، شاید لاگت کم آتی ہے۔ اور سنا ہے جو احتجاج کرتے ہیں وہ بھی اسی لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کا کاروبار خطرے میں ہے۔”
“تو گویا اپنی ثقافت کے خطرے میں پڑ جانے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں؟” اعتراض کیا گیا۔
“ثقافت کو کیا خطرہ ہے جی؟”
“موضوعات اور مناظر شاید پاکستان کے ماحول کے مطابق نہیں۔ بلکہ ایک ترک پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ‘عشقِ ممنوع’ میں جو موضوع چُنا گیا ہے، وہ تو ترکی میں بھی اتنا عام نہیں، کچھ ہائی فائی طبقوں میں شاید یہ باتیں ہوتی ہوں۔ مگر ترکی کا امیج بھی دنیا میں خراب ہو گیا ہے۔”
“چھوڑئیے بھی! یہ ڈرامے تو عرب ممالک میں بھی چلے، اور جو کچھ دکھایا جاتا ہے ان ڈراموں میں وہ ہماری نوجوان نسل ویسے بھی انٹر نیٹ پر دیکھ لیتی ہے تو کاہے کا خطرہ اور کس بات کا اعتراض؟”
“سب انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے، اور آپ سے کس نے کہا کہ انٹرنیٹ پر ایسا مواد دیکھنے دکھانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں؟”
مجھے لاجواب ہونا پڑا۔
“ماضی میں تو موضوعات کا ایسا قحط دیکھنے میں نہیں آتا تھا، لکھاری حضرات کس موضوع پر نہیں لکھتے تھے؟ کشمیر تک کے موضوع پر ڈرامے بنا کرتے تھے۔”
“آپ کو شاید معلوم نہیں، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ بند ہو چکی ہے۔” میں نے منہ بنا کر جواب دیا۔
“اور یہ کیا کوئی بالی ووڈ کا میگزین شو چل رہا ہے؟” ٹی وی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا گیا۔
“یہ؟” میں نے توقف کیا، پھر دھیمی آواز میں جواب دیا: “خبریں ہیں۔”
“کیا کہا؟ خبریں؟”
“جی، یہ فیشن ہے اب ایسے خبریں سنانے کا، گانے بجانے کے ساتھ۔”
“عجیب بات ہے، ہمسائیوں کی اتنی خبریں؟ خیر، جس کا کھائیے اسی کا گائیے۔”
“ویسے یہ چینل بہت تیز ہے خبریں بہم پہنچانے میں۔”
“کہیں یہ وہی تیز رفتار چینل تو نہیں جس نے فراز صاحب کی وفات کی خبر بھی چلا دی تھی اور بعد میں تردید کر دی؟”
“وہ بات پرانی ہو چکی، تب میڈیا کو آزاد ہوئے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا اور ریٹنگ وغیرہ کے چکر تھے۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے، اب تو خبریں سچ ہی ہوتی ہیں اور ہر موضوع کو ہی کوریج ملتی ہے۔”
“خوب! مگر ریٹنگ کی ریس تو اب بھی ہے، جا بجا ثبوت بکھرے ہوئے ہیں کہ آزاد میڈیا کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔”
” آپ کو اعتراض کس بات پر ہے آخر؟ اگر میڈیا مسائل کو اجاگر کر رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسائل موجود ہیں، مثال کے طور پر بلوچستان اور کراچی وغیرہ۔”
” کشمیر کا نام نہیں لیا آپ نے۔ خیر، ہر موضوع کی کوریج کی بات کی تھی آپ نے، پچھلے دنوں ناروے سے ایک ٹیم پاکستان آئی جس نے بذریعہ سڑک ان تمام علاقوں کا سفر کیا جو “نو گو ایریاز” کہلاتے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں جانے والا زندہ واپس نہیں آتا، مگر وہ بفضلِ خدا بخیر وعافیت اپنے ملک واپس لوٹے اور دِل میں یہ تلخ احساس لیے واپس گئے کہ میڈیا نے انہیں پوچھا بھی نہیں۔ شاید ماما قدیر سے فرصت نہیں ملی میڈیا کو۔”
مجھے ایک بار پھر لاجواب ہونا پڑا۔
“یہ سب ڈرامے ہیں حضور۔ اور اب یہ مت کہیے گا کہ آپ شرمندہ ہیں، وہ بھی ڈرامہ ہی ہو گا آپ کا!”
اب آپ ہی بتائیے میں کیا کہوں؟
ہمارا میڈیا تو کب کا بکا ہوا ہے اور دوسروں کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے شیم آن دس میڈیا