٢١ مئی بروز بدھ پاک فضائیہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں ٨٠ کے قریب مقامی اور غیرملکی شدت پسند ہلاک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ان حملوں میں ازبک کمانڈر ابو احمد، کمانڈر قانونی، کمانڈر گلمند، کمانڈر جہاد یار، موسٰی خان محسود، صابر محسود اور دختر محمد سمیت ٹی ٹی پی کے کئی اہم کمانڈر جاں بحق ہوئے۔
صابر محسود، جو ان دنوں خودکش بمباروں کے عمل و حرکت اور تربیت کا ذمہ دارتھا، اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سابق ایجنٹ خالد خواجہ، کرنل امام اور برطانوی صحافی اسد قریشی کے اغواء میں بھی ملوث رہا تھا۔
ان تین اشخاص کے اغواء کی ذمہ داری ایشین ٹائگر نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس تنظیم کی داغ بیل صابر محسود نے اپنے دوست عثمان پنجابی عرف عمر کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔ ایشین ٹائگر میں زیادہ تر افرادی قوت لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی تھی۔
اس اغواء کے دوران عثمان پنجابی ایشین ٹائگر کے ترجمان کے طور پر منظر عام پر آیا۔ عثمان نے عبداللہ منصور، جو کہ لشکر جھنگوی العالمی کا سربراہ تھا، کے ساتھ مل کر ان تین اشخاص کو ڈاکیومنٹری کی عکسبندی کے دھوکے سے بلا کر اغواء کیا تھا۔ اس اغواء کے تقریباً ایک مہینہ بعد خالد خواجہ کو قتل کردیا گیا۔ خالد خواجہ کے بیٹے نے اپنے والد کی موت کا ذمہ دار حامد میر کو ٹھہرایا تھا۔ ان کے مطابق حامد میر کی ایک فون کال خالد خواجہ کے قتل کا باعث بنی تھی جس میں حامد میر نے عثمان پنجابی کو وزیرستان میں فوج کی متوقع نقل وحرکت کے بارے میں آگاہ کیا تھا، اور بتایا تھا کے خالد خواجہ کا تعلق سی آئی اے سے ہے۔ اس بات چیت کے فوراً بعد ہی اغواءکاروں کی جانب سے خالد خواجہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔
کچھ عرصے بعد ڈانڈے درپہ خیل، شمالی وزیرستان کے علاقے میں محسود قبیلے اور عثمان پنجابی کے درمیان ایک عرب جنگجو کی بیوہ پر تنازع کھڑا ہوا، اور نتیجتاً عثمان پنجابی اپنے پانچ ساتھیوں سمیت صابر محسود کے ہاتھوں مارا گیا۔ صابر محسود اور حکیم اللہ کے تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ تھے اس واقعے کے بعد مزید تناؤ کا شکار ہو گئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق حکیم اللہ محسود کی جانب سے صابر محسود کو مارنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔
عثمان کی موت کے اگلے ماہ اسد قریشی کو بھاری تاوان کے عوض رہا کر دیا گیا، جبکہ کرنل امام کی رہائی کے لئے حکیم اللہ محسود نے حکومت سے مذاکرات شروع کئے۔ جو شرائط پیش کی گئیں ان میں تاوان سمیت سرفہرست شرط زیرحراست طالبان جنگجؤوں کی رہائی تھی۔ مذاکرات کامیاب ہوتے نظر آ رہے تھے اور غالب گمان یہی تھا کہ کرنل امام کو بھی تاوان کے بدلے رہا کر دیا جائے گا، لیکن مذاکرات کے دوران ہی کرنل امام کو شہید کر دیا گیا۔
حالیہ فضائی حملوں میں جہاں اہم کمانڈروں سمیت متعدد مقامی اور غیرملکی دہشتگرد ہلاک ہوئے وہیں کچھ عام شہریوں کے جانی نقصانات کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ گو کہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے مہینوں کی تیاری اور ١٠٠٪ انٹیلیجنس اطلاعات کے بعد کئے جاتے ہیں، پھر بھی نقصانات کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ ان سولین ہلاکتوں کے لئے پوری طرح پاک فوج کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں۔ وزیرستان میں سیاسی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث عام شہری دہشتگردوں کو اپنے درمیان جگہ دینے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورتحال میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور شہریوں کی رہائش کے درمیان تفریق کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ فوج کی جانب سے دہشتگردی کے ٹھکانوں کی تباہی کے فوراً بعد ہی ٹی ٹی پی کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے مختلف ممالک کے مناظر کو فوج کے حملوں سے منسوب کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ پیش کی جانے والی اکثر تصاویر حقیقت سے دور اور سراسر گمراہ کن ہوتی ہیں۔
We have to finish with talibans & TTP branch, their crimes are not pardonable, they were supported by foreign anti-islam terrorits powers. Even On the count of anti-Pakistan,
no mercy for anyone.
longlive Islamic Republic of Pakistan