اقوامِ عالم جو ہر قضیے پر ثالثی کو تیاررہتی ہیں کیا کشمیر کے معاملے پر محض اس لئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ انہیں بھارت جیسی بڑی منڈی سے ہاتھ نہ دھونا پڑے؟ اور کب تک چناب فارمولا اور اسی قسم کے “لالی پاپ” دے کر کشمیریوں کو بیوقوف بنایا جاتا رہے گا؟
“اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، کچھ جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور تم صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔” [البقرہ۔ آیت 155]
دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی آزمائش صدیوں پر محیط ہو چلی ہے جہاں جموں وکشمیر کے رہنے والوں کو ایک کروڑ روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا، لاکھوں بندگانِ خدا کی فروخت کے اس واقعے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی جہاں لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کر دیا گیا، حتٰی کہ کچھ انگریز جن میں ریاستی غیرت کا عنصر باقی تھا اس واقعے کو انگریزوں کے دامن پر ایک بدنما دھبہ قرار دیتے ہیں۔ کشمیر کی فروخت کا یہ واقعہ مختلف حیثیتوں سے اہم ہے، اوّل تو بڑے بڑے علاقوں کی خرید وفروخت کا ایسا کوئی واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا، دوسرے کشمیری ایک سو سال تک گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے، جن میں سب سے زیادہ عتاب مسلمان آبادی کو سہنا پڑا اور اس ظلم وستم کی کوکھ سے “کشمیر چھوڑ دو” تحریک نے جنم لیا۔
سنہ1941ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی 77 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، تقسیم کے طے شدہ فارمولے کے مطابق ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی اکثریتی آبادی کی خواہش اور اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے مطابق بھارت یا پاکستان جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کشمیر کا فطری الحاق پاکستان کے ساتھ بنتا تھا مگر ریڈکلف کی نا انصافی اور بد دیانتی کی بنا پر بھارت کو کشمیر میں غیر فطری راستہ مہیا کیا گیا۔ کشمیری مسلم اکثریت کی خواہش تھی کہ جموں وکشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔ اکثریت کی بغاوت کے خوف سے مہاراجہ نے بھارت سے مدد کی درخواست کی جسے بھارتی حکومت نے بھارت سے الحاق کی شرط پر منظور کر لیا، اور اپنی افواج مقبوضہ کشمیر میں اتار دیں جو آج تک کشمیر پر قابض ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ ۴۳ فیصد علاقہ بھارت کے قبضے میں ہے۔ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں نے کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے مسلح جدوجہد شروع کی تو بھارت یہ قضیہ اقوامِ متحدہ میں لے گیا، جہاں بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے استصوابِ رائے کا وعدہ کیا کہ کشمیری عوام جس ریاست سے الحاق کرنا چاہیں انہیں اس بات کی اجازت ہو گی۔
مگر سنہ1952ء میں بھارت نے “آئینی جارحیت” کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا “اٹوٹ انگ” قرار دیا اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، اور یہ جواز پیش کر کے کہ کشمیر اب بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، رائے شماری سے یکسر انکار کر دیا گیا۔
آج تقریباً سات دہائیوں کے بعد کشمیر میں یہ عالم ہے کہ قابض افواج کو “AFSPA” کے نام پر لا تعداد اختیارات حاصل ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کھلے بندوں جاری ہے۔ ماورائے عدالت قتل، خواتین کی بے حرمتی اور لاکھوں کی تعداد میں لا پتہ افراد کا مسئلہ عام ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے گمنام قبروں کی دریافت، جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لا پتہ کیا گیا تھا، عام ہے، مگر یہ سب کچھ چاہے وہ گواکدال کی خونریزی ہو یا کلگام اور سوپور کا قتلِ عام، اقوامِ عالم کا ضمیر جھنجھوڑنے میں ناکام ہے۔ اور کشمیر کہ جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے، خون اور بارود نے اس وادی کے لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق قابض افواج ہسپتالوں کے آُپریشن تھیٹر میں بھی گھس آتی ہیں کہ چھپے ہوئے مجاہدین کو تلاش کیا جا سکے۔ سیاحت، جو کہ جموں وکشمیر کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھی وہ بھی بھارتی قبضے کی وجہ سے پابندیوں کا شکار ہے، مقبوضہ وادی کے ان حالات پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
اے سُلگتی ہوئی جنت مرے محبوب وطن
تِری شبنم پہ بھی اشکوں کا گماں ہوتا ہے
یورپی یونین نے بھی بھارت کو کشمیر میں اپنی قابض افواج کو لگام دینے کی ہدایت دی تھی، جبکہ وکیلیکس کی ایک رپورٹ میں بھی بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
کشمیری جو کہ مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی طور پر پاکستان سے منسلک ہیں، منتظر ہیں کہ ان کا جو مسئلہ سات دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کے سرد خانے میں پڑا ہے وہ کب حل ہو گا؟ حل ہو گا بھی یا نہیں؟ کیا بھارت ہمیشہ مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد کشمیر کا ذکر آتے ہی انہیں خود ہی سبوتاژ کرتا رہے گا؟ اور اقوامِ عالم جو ہر قضیے پر ثالثی کو تیاررہتی ہیں کیا کشمیر کے معاملے پر محض اس لئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ انہیں بھارت جیسی بڑی منڈی سے ہاتھ نہ دھونا پڑے؟ اور کب تک چناب فارمولا اور اسی قسم کے “لالی پاپ” دے کر کشمیریوں کو بیوقوف بنایا جاتا رہے گا؟
اب جبکہ یومِ یکجہتئ کشمیر منایا جائے گا تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں بھی کی جائیں۔ اقوامِ متحدہ کو اتنی ہی سنجیدگی اور سرعت دکھانی چاہیے جتنی کہ مشرقی تیمور کے مسئلے پر دکھائی گئی تھی، اور بھارت کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت تسلیم کرے، اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے بجائے خطے میں قیامِ امن کی کوششوں کو فروغ دے۔
کشمیری عوام کے لیے اس آزمائش سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے
“اے اہلِ ایمان [کفار کے مقابلے میں] ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو اور خدا سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو۔” [آلِ عمران۔ آیت ۲۰۰]
Today Kashmir is much more peaceful and happier than ever. Economy of Kashmir is growing fast and its students are doing wonderful. From the topper of IAS to joining NASA in US… kashmiri youth have come a long way. It was Kashmiri girls who gave india her first “All Girl Music Band” despite the glitter and money of Bollywood. Alas, the talibani elements in kashmir made the young talents to abandon their band.
Kashmir had over 1.3 million tourists in the year 2012 with about 40,000 foreign tourists and its hoping to cross 2 millions in the year 2014. Kashmir never had as many tourists ever in its history.
Dont you think that normalcy has returned to Kashmir or you just want kashmiris to live under terror and gun fire? Ask any kashmiri and no one talks of Pakistan. My humble request to all pakistanis is that please let kashmiris live and flourish in peace. Please dont instigate rogue elements by writing and repeating something that has lost its relevance. Please focus your energies on TTP, Balochistan and your dwindling economy. No one respects a beggar. India has come a long way to not accept aid but rather it gives aid to many developing nations. Its high time you focus on your economy and internal peace.